کچھ انسانوں کے سینگ کیوں اگ آتے ہیں؟

کچھ کیوٹینیئس سینگ عجیب جگہوں جیسے سینے پر بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور چونکہ ان میں کبھی کبھار سرطان کا تعلق ہو سکتا ہے، اس لیے جس شخص کو ایسا ابھار محسوس ہو، اسے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

2024 میں چین کی ایک ضعیف خاتون ژانگ رُوئی فانگ اس وقت خبروں کی زینت بنیں، جب ان کے ماتھے پر ایک بڑا سینگ اُگا، جو سات برس میں 10 سینٹی میٹر لمبا ہو گیا (اے ڈبلیو جی ای کلیکشن انسٹاگرام)

 

گھوڑوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جانور، جن میں گھوڑے، گدھے اور زیبرا شامل ہیں، چند دلچسپ خصوصیات رکھتے ہیں جنہیں ’چیسٹ نٹس‘ کہا جاتا ہے۔

یہ ہر گھوڑے پر پائی جاتی ہیں اور ان کی شکل سخت ابھاروں یا جلد کے موٹے حصوں جیسی ہوتی ہے، جو ان کی ٹانگوں پر بنتی ہیں۔ اگر یہ زیادہ بڑھ جائیں تو انہیں تراش کر چھوٹا کیا جا سکتا ہے۔

جو کوئی بھی ٹک ٹاک پر پُرکشش اور مضبوط نعل ساز سیم وولفنڈن کو فالو کرتا ہے، اس نے یقیناً ان کی ماہرانہ چیسٹ نٹ تراشی دیکھی ہو گی۔

چیسٹ نٹس ایک دلچسپ عنصر ہیں: یہ ان انگلیوں کے پیڈز کی باقیات ہیں جو گھوڑوں کے قدیم آبا و اجداد میں موجود تھیں، خواہ وہ جنگلی ہوں یا گھریلو۔

یہ ہر جانور کے لیے منفرد ہوتی ہیں، آپ انہیں ہر گھوڑے کے ’فنگر پرنٹ‘ یعنی انفرادی نشان کے طور پر تصور کر سکتے ہیں۔

چیسٹ نٹس کی ساخت کیریٹن جیسی ہوتی ہے، یہ وہی مادہ ہے جو انسانی جلد کی بیرونی تہہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ حفاظتی، واٹر پروف اور پائیدار ہوتا ہے، جو جسم کو مضبوطی اور لچک دیتا ہے۔ یہی مادہ بالوں اور ناخنوں میں بھی موجود ہوتا ہے، جو گرمی کو محفوظ رکھنے اور دماغ تک حسی معلومات پہنچانے جیسے اہم افعال میں مدد دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جانوروں کے سم اور سینگ بھی اسی اصول پر بنتے ہیں۔ یہ بھی کیریٹن پر مشتمل ہوتے ہیں اور جلد سے ہی اگتے ہیں، جن کا بنیادی مقصد تحفظ فراہم کرنا یا جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہونا ہوتا ہے۔ یوں کیریٹن انسانوں اور جانوروں دونوں کی ساخت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور چونکہ ہم سب ایک جیسے حیاتیاتی مادّوں سے بنے ہیں، اس لیے یہ جان کر حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ انسانوں میں بھی سینگ اگ سکتے ہیں، البتہ گھوڑوں یا بکریوں جیسے نہیں۔

’کیوٹینیئس سینگ‘ یا ’کورنو کیوٹینیئم‘ ایسی سخت کیریٹن کی پرتیں ہیں جو انسان کی جلد سے باہر کی طرف اگتی ہیں۔ ان کی عام طور پر مڑی ہوئی شکل اور سخت ساخت انہیں بکری، بھیڑ یا گائے کے سینگوں جیسا بناتی ہے۔

یہ رنگت میں زرد سے بھورے یا سرمئی تک مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہ رنگ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ کیریٹن کی تہہ میں کتنا روغن یا مردہ خلیے جمع ہو گئے ہیں۔

کیوٹینیئس سینگ مختلف اقسام کے جلدی زخموں سے بنتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر بے ضرر ہوتے ہیں۔ کئی عام سومی زخم، جیسے سیبورائیک کیراٹوسِس جو بڑی عمر کے افراد میں عام مسّے جیسے ابھار ہوتے ہیں، ایسے سینگوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مسّے، جنہیں ہیومن پیپیلوما وائرس سے لاحق ہونے والے وائرس پیدا کرتے ہیں، بھی اس طرح کے ابھار بنا سکتے ہیں۔

یہ وائرس جلد اور جھلیوں کو متاثر کرتے ہیں اور بعض اوقات مسّے یا شاذونادر صورت میں سرطان پیدا کر سکتے ہیں۔

تقریباً 16 سے 20 فیصد کیوٹینیئس سینگ سرطان خیز ہوتی ہیں، جو جلد کے سرطان، خاص طور پر سکویمس سیل کارسینوما سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کینسر جلد کی بیرونی تہہ سے شروع ہوتا ہے اور اگر علاج نہ کیا جائے تو اندرونی بافتوں میں پھیل سکتا ہے۔ دیگر سینگ یا (horns) ایسی حالتوں سے بھی بنتے ہیں جو پری مالگننٹ کہلاتی ہیں، یعنی وہ تبدیلیاں جو ابھی سرطان نہیں بنیں مگر بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس کی ایک نمایاں مثال ایکٹینک کیراٹوسِس ہے، جو بعد میں سکویمس سیل کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہے، بعض اوقات سینگ بناتی ہے مگر اکثر نہیں۔ ان صورتوں میں زخم کے اندر موجود خلیے اپنی اصل ساخت اور فعالیت کھو دیتے ہیں۔

یہ غیر قابو شدہ بڑھوتری کیریٹن کی غیر معمولی پیداوار کا باعث بنتی ہے، جو کبھی کبھار سینگ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

جن لوگوں میں کیوٹینیئس سینگ بنتے ہیں، چاہے وہ سومی ہوں، پیش سرطان ہوں یا سرطان زدہ، ان میں چند مشترکہ خطراتی عوامل دیکھے گئے ہیں۔

یہ سینگ بڑی عمر کے افراد اور ہلکی رنگت والی جلد رکھنے والوں میں زیادہ عام ہیں اور عموماً سورج کی روشنی میں رہنے والے حصوں، جیسے سر یا چہرے پر بنتے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کا بڑا کردار ہے۔

سورج سے جلد کو پہنچنے والا نقصان تمام اقسام کے جلدی سرطان کی بنیادی وجہ ہے، جن میں سب سے خطرناک قسم میلانومہ ہے۔ سکویمس سیل کینسر کے برعکس، میلانومہ روغن پیدا کرنے والے خلیوں سے شروع ہوتا ہے اور اگر بروقت علاج نہ ہو تو جسم میں تیزی سے پھیل سکتا ہے۔

حیرت انگیز طور پر بڑے سائز میں بڑھنا

کچھ کیوٹینیئس سینگ عجیب جگہوں، جیسے سینے یا حتیٰ کہ جنسی اعضا پر بھی ظاہر ہو سکتی ہیں اور چونکہ ان میں کبھی کبھار سرطان سے تعلق ہو سکتا ہے، اس لیے جس شخص کو ایسا ابھار محسوس ہو، اسے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

ان کی ظاہری شکل پریشان کن ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب وہ چہرے جیسے نمایاں حصے پر بنیں۔ یہ تکلیف یا جلن بھی پیدا کر سکتی ہیں۔ علاج عموماً جراحی کے ذریعے سینگ اور اس کے ارد گرد کی تھوڑی جلد کو کاٹ کر نکالنے سے کیا جاتا ہے، جسے ایکس سِیژن کہا جاتا ہے۔

کچھ کیوٹینیئس سینگ حیران کن حد تک بڑے ہو سکتے ہیں۔ 2024 میں چین کی ایک ضعیف خاتون اس وقت خبروں کی زینت بنیں، جب ان کے ماتھے پر ایک بڑا سینگ اُگا، جو سات برس میں 10 سینٹی میٹر لمبا ہو گیا۔ کچھ سینگوں کو ان کی شکل کی وجہ سے ’یونیکورن ہارنز‘ کہا گیا، جب وہ ماتھے کے عین وسط سے اُگ آئے۔

اسی طرح انڈیا میں ایک مریض کے بارے میں رپورٹ دی گئی کہ ان کے سر کے اوپری حصے سے ’شیطانی سینگ‘ اُگ آیا۔ البتہ سب سے بڑے کیوٹینیئس ہارن کا ریکارڈ غالباً میڈم دیمانش، جسے ’ویڈو سنڈے‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے پاس ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں ان فرانسیسی خاتون کا سینگ تقریباً 25 سینٹی میٹر تک لمبا ہو گیا، جو ان کی ٹھوڑی سے نیچے تک لٹکنے لگا تھا، بعد ازاں اسے جراحی سے ہٹا دیا گیا۔

ان کے چہرے اور سینگ کا موم کا نمونہ آج بھی میوٹر میوزیم فلاڈیلفیا میں جسمانی عجائبات کے مجموعے میں موجود ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق