’مہاشیر‘ کی نسل بچانے کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی میں قرارداد منظور

خطرے سے دوچار انواع کی ریڈ لسٹ میں شامل مہا شیر مچھلی کی نسل بچانے کے لیے اس کے بے دریغ شکار اور دیگر اقدامات کی ضرورت ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع چترال سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی فاتح ‌الملک ناصر نے تین نومبر کو مہاشیر مچھلی کی نسل بچانے کے لیے اسمبلی میں قرارداد پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

فاتح ‌الملک ناصر نے اسمبلی کو بتایا کہ کمرشل استعمال، غیر قانونی شکار، افزائش نسل کو نقصان اور آبی آلودگی کی وجہ سے مہاشیر مچھلی کی نسل کو خطرہ لاحق ہے۔

انہوں نے کہا: ’پاکستان کی قومی مچھلی کے طور پر اس کی نسل کو بچانے کے لیے قومی سطح پر اقدامات لینے کی ضرورت ہے، اور خیبر پختونخوا میں بھی ایسے اقدامات کیے جانے چاہیے کیونکہ مہاشیر کا شکار زہر اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے کیا جاتا ہے۔‘

فاتح ‌الملک ناصر نے بتایا کہ مہاشیر کا شکار صرف کانٹے یا ڈوری کے ذریعے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور اس مچھلی کے شکار میں بارود، زہر اور جال کے استعمال پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے۔

مہاشیر کو انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے خطرے سے دوچار انواع کی ریڈ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔

آئی یو سی این کے مطابق مہاشیر کے بڑھتے ہوئے شکار، افزائش کی جگہ کو نقصان، اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے اس مچھلی کی آبادی مختلف علاقوں میں کم ہو گئی ہے۔

’شیر مچھلی‘

مہاشیر مچھلی اپنے سائز اور وزن کی وجہ سے ’شیر مچھلی‘ کہلاتی ہے۔ دہائیوں سے یہ مچھلی بطور شکار استعمال کی جاتی ہے اور جنوبی و شمال مشرقی ایشیا کے دریاؤں میں پائی جاتی ہے جن میں پاکستان، انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، چین، تھائی لینڈ اور ملائشیا شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، مہاشیر مچھلی کی پہلی قسم 1822 میں مہانندہ دریا میں دریافت ہوئی تھی، جس کے بعد مختلف ادوار میں اس کی دیگر اقسام دریافت کی گئیں۔

اس کے نام کے حوالے سے رپورٹ میں مختلف مفروضے بیان کیے گئے ہیں۔ ایک کے مطابق، اس کا نام دو ہندوستانی الفاظ ’ماہا‘ (بڑا) اور ’سیر‘ (سر) سے مل کر بنا ہے، یعنی بڑے سر والی مچھلی۔

ایک فارسی سکالر کے مطابق یہ لفظ ’ماہی‘ (مچھلی) اور ’شیر‘ (شیر) سے نکلا ہے، یعنی ’شیر مچھلی‘۔

تیسرا مفروضہ یہ ہے کہ اس کا ماخذ سنسکرت زبان کا لفظ ’ماہا سوالہ‘ ہے، جس کا مطلب ’بڑے پیمانے پر‘ ہے، یعنی یہ مچھلی دریاؤں میں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔

مزید ایک دوسرے مفروضے کے مطابق، اس کا نام ’ماتسیا‘ ہے جو سنسکرت میں مچھلی کو کہا جاتا ہے اور جس کا ذکر ہندو مذہبی کتاب ’وید‘ میں ملتا ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق غالب رائے یہی ہے کہ اس کا نام ’مہا شیر‘ یعنی ’شیر مچھلی‘ ہے، کیونکہ باقی مفروضے اس کی ساخت سے مطابقت نہیں رکھتے — یہ مچھلی بڑے سر والی نہیں، اور نہ ہی اس کے نام کی ساخت سنسکرت سے میل کھاتی ہے۔

یہ مچھلی برصغیر کے دریاؤں میں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے، جن میں دریائے سندھ، دریائے کابل، دریائے کرم، دریائے سوات، دریائے گومل، دریائے ژوب اور دریائے پنجکوڑہ شامل ہیں۔ بعض تحقیقی مقالوں میں اسے ’کنگ آف سوات‘ بھی کہا گیا ہے۔

برازیلین جرنل آف بائیولوجی میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق، اس مچھلی کی تقریباً 47 اقسام ہیں، جن میں سے بعض پاکستان کے انڈس ریور سسٹم میں اور بعض انڈیا کے دریاؤں میں پائی جاتی ہیں۔

وائلڈ لائف ایسوسی ایشن آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، مہاشیر ایک مائگریٹری مچھلی ہے جو زیادہ تر صاف اور تیز بہتے پانی میں رہتی ہے، اور اب تک سب سے وزنی مہاشیر 54 کلوگرام کی پکڑی گئی ہے۔

مہاشیر کی ساخت

انڈونیشیا کی کوالا یونیورسٹی کے تحقیقی مقالے کے مطابق، مہاشیر کی پشت پر چار نوکیلے کانٹے، آٹھ پَر، تین نوکیلے اور پانچ نرم کانٹے پچھلے حصے پر، جبکہ ریڑھ کی ہڈی میں 39 سے 41 مہرے ہوتے ہیں۔

اسی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ چھوٹے سائز کے مہاشیر کے نوکدار کانٹے زرد رنگ کے ہوتے ہیں، جو بڑا ہونے کے بعد کالے ہو جاتے ہیں۔ مچھلی کا رنگ اور منہ کی ساخت اس کی قسم کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔

مقالے کے مطابق، بڑے جسامت، مضبوطی اور زیادہ گوشت کی وجہ سے اسے ’دریا کا بادشاہ‘ یا Fish of God کہا جاتا ہے۔ ہندو مذہب میں اسے مقدس سمجھا جاتا ہے، اور مندروں کے تالابوں میں صدیوں سے یہ موجود ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر محمد یوسف، سوات یونیورسٹی کے سنٹر فار اینیمل سائنسز اینڈ فِشرِیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور مہاشیر پر تحقیقی مقالہ لکھ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں مہاشیر کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک گولڈن مہاشیر، جو دریائے سوات، دریائے پنجکوڑہ اور دریائے کابل میں پائی جاتی ہے، اور دوسری ژوبی مہاشیر، جو دریائے ژوب اور شمالی وزیرستان کے دریاؤں میں پائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر یوسف نے کہا کہ مہاشیر کی نسل واقعی خطرے سے دوچار ہے اور اس کی آبادی کم ہو رہی ہے، لیکن اس پر خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا۔

ان کے مطابق، اٹک میں ایک مہاشیر ہیچری ہے جہاں افزائش پر بہتر کام ہو رہا ہے، تاہم خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ میں موجود ہیچری مسائل کا شکار ہے۔

ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ مہاشیر کو 40 سے 45 فیصد پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ملاکنڈ ہیچری میں مشاہدہ کیا گیا کہ اسے باسی روٹی کھلائی جا رہی تھی، جبکہ یہ مچھلی گوشت خور ہے — اسی وجہ سے نسل نہیں بڑھ رہی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسے ’کنگ آف سوات‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ موسمِ سرما میں یہ دیگر دریاؤں سے ہجرت کر کے دریائے سوات کے ٹھنڈے پانیوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، جہاں اسے خیبر پختونخوا میں خاص طور پر پسند کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات