پاکستانی ٹرک ڈرائیور محمد افضل کو اس ہفتے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں داخل ہوتے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ پولیس انہیں روکے گی اور سائلنسر سے گاڑھا دھواں نکلنے کے باوجود انہیں جرمانہ تو بالکل ہی نہیں ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
جب محمد افضل کو بتایا گیا کہ انہیں ایک ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا اور اگر مسئلہ ’درست‘ نہ کیا گیا تو ان کا ٹرک ضبط کر لیا جائے گا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ناانصافی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’میں گاڑی کی مرمت کروا کر لاہور سے آ رہا ہوں۔ انہوں (پولیس) نے خود ایکسیلیریٹر دبایا تاکہ گاڑی سے دھواں نکلے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔‘
شہر میں اس ماہ قائم کی گئی چوکیاں شہر میں تیزی سے بڑھتی سموگ پر قابو پانے کے لیے حکام کی مہم کا حصہ ہیں۔ سردی کے مہینوں میں صورت حال سب سے زیادہ سنگین ہو جاتی ہے، کیوں کہ آلودگی زمین کی سطح کے قریب اکٹھی ہو جاتی ہے جس سے سموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
پاکستان کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (ای پی اے) کے ڈاکٹر ضیغم عباس نے دارالحکومت کے جنوب مشرقی کنارے پر قائم چیک پوائنٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ ’ہم پہلے ہی گاڑیوں کے مالکان کو سخت کارروائی سے خبردار کر چکے ہیں، اور اگر وہ احکامات پر عمل نہیں کریں گے تو ہم انہیں شہر میں داخل ہونے سے روک دیں گے۔‘
موقعے پر گاڑیوں کا معائنہ کرنے والے ٹیکنیشن ولید احمد کے مطابق: ’بالکل انسان کی طرح، ہر گاڑی کی بھی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے۔ جو گاڑیاں یہ حد پار کر جاتی ہیں، وہ ایسا دھواں خارج کرتی ہیں, جو انسانی صحت کے لیے نہایت خطرناک ہوتا ہے۔‘
’اپنا پیدا کردہ بحران‘
اگرچہ اسلام آباد ابھی لاہور یا کراچی جیسے بڑے شہروں کی انتہائی شدید سردیوں کی آلودگی کی سطح تک نہیں پہنچا، جہاں ہر سال بھاری صنعتیں اور اینٹوں کے بھٹے ٹنوں کے حساب سے آلودگی پھیلاتے ہیں، لیکن اب اسلام آباد بھی تیزی سے اس فرق کو کم کرتا جا رہا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں قائم نگرانی کرنے والی کمپنی آئی کیو ایئر کے مطابق، اس سال دسمبر میں اب تک پی ایم 2.5 آلودگی کے ذرات کی سطح 150 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر سے تجاوز کر چکی ہے، اور ادارے نے پہلے ہی سات دن ایسے ریکارڈ کیے ہیں جو صحت کے لیے ’نہایت غیر صحت بخش‘ تھے۔
اسلام آباد میں ایک ہی دن کے دوران پی ایم 2.5 آلودگی کی سطح اکثر کراچی اور لاہور سے تجاوز کر جاتی ہے، اور 2024 میں اس شہر کی سالانہ اوسط پی ایم 2.5 ریڈنگ 52.3 مائیکرو گرام رہی، جو لاہور کی 46.2 کی ریڈنگ سے زیادہ تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سالانہ ریڈنگ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے تجویز کردہ پانچ مائیکرو گرام کی محفوظ سطح سے کہیں زیادہ ہے۔
1960 کی دہائی میں پاکستان کے دارالحکومت کے طور پر بالکل نئے سرے سے تعمیر کیا جانے والا یہ شہر، ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ایک شہری نمونے کے طور پر تصور کیا گیا جس میں چوڑی سڑکیں اور ہمالیہ کے دامن سے متصل وسیع سبز علاقے شامل تھے۔
لیکن اسلام آباد کا کشادہ طرز تعمیر پیدل چلنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور یہاں عوامی نقل و حمل کے ذرائع بھی محدود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ رہائشیوں کو سفر کے لیے گاڑیوں، جن میں زیادہ تر پرانے ماڈل شامل ہیں، کی اشد ضرورت رہتی ہے۔
تحقیقی گروپ پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹیو نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ’وفاقی دارالحکومت کا علاقہ اپنے ٹرانسپورٹ سیکٹر کی وجہ سے شدید آلودگی کے شکنجے میں ہے‘ جو یہاں پی ایم 2.5 کے 53 فیصد زہریلے ذرات پیدا کرتا ہے۔
گروپ کا کہنا ہے کہ ’اسلام آباد میں دکھائی دینے والی دھند، کارخانوں کا دھواں نہیں بلکہ ہزاروں نجی گاڑیوں سے نکلنے والا اخراج ہے۔‘
’بنیادی حق‘
سات دسمبر کو کریک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کی سربراہ نازیہ زیب علی نے کہا کہ پہلے ہی ہفتے میں چیک پوائنٹس پر 300 سے زائد جرمانے کیے گئے، جبکہ 80 گاڑیاں ضبط کی گئیں۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا: ’ہم کسی بھی صورت ایسی غیر معیاری یا احکامات کی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں کو شہر کی فضا کو زہر آلود بنانے اور عوامی صحت کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
شہر میں ایسے مراکز بھی قائم کیے جا رہے ہیں جہاں ڈرائیور اپنی گاڑیوں کے اخراج کی جانچ کروا سکتے ہیں اور جو گاڑیاں معائنہ میں کامیاب ہوں گی ان کے شیشے پر سبز سٹیکر لگایا جائے گا۔
51 سالہ افتخار سرور نے اسلام آباد کے ایک پارک کے قریب مصروف سڑک پر اپنی گاڑی کی جانچ کرواتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں پہلے لاہور کی فکر تھی، لیکن اب اسلام آباد کی بھی ہو گئی ہے اور یہ سب گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے پہلے کبھی دوا کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن اب اگر میں صبح گولی نہ لوں تو الرجی ہو جاتی ہے۔ میرے خاندان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔‘
دیگر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے حکومت کے اقدامات موسم سرما میں بڑھتی ہوئی سموگ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوں گے۔
ماہر بشریات سلیمان اعجاز نے کہا: ’یہ وہ اسلام آباد نہیں ہے جس میں میں 20 سال پہلے آیا تھا۔
’جب میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میری بیٹی مجھ سے صاف ہوا مانگے تو میں اسے کیا جواب دوں گا؟ تو مجھے بے چینی محسوس ہوتی ہے کیوں کہ صاف ہوا اس کا بنیادی حق ہے۔‘