وہ میرا اسلام آباد کہاں کھو گیا؟

مجھے اسلام آباد میں رہتے ہوئے تین دہائیاں ہو چکی ہیں اور میری نظروں کے سامنے یہ شہر بدل کر رہ گیا۔

اسلام آباد میں دس جولائی 2024 کو طوفانی بارش کے بعد سڑکیں نہریں بن گئیں (اے ایف پی)

کہاں پہلے اسلام آباد میں اتنی ہریالی ہوتی تھی کہ فضا میں تتلیاں، پیڑوں پر گانے گاتے پرندے اور ہوا میں پھولوں کی خوشبو ہوا کرتی تھی۔ اب کہاں یہ شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرو تو دھول مٹی آپ کا استقبال کرتی ہے۔ انسان گھبرا کر شیشہ بند کر دیتا ہے کہ میں نے تو تازہ ہوا کے لیے شیشہ کھولا تھا یہ کیا آلودگی سے بھرپور ہوا مجھ سے ٹکرا گئی؟

وہ شہر کہیں کھو گیا جس میں کھیل کر ہم بڑے ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے اس وقت ایسے آندھی طوفان آیا کرتے تھے کہ اللہ کی پناہ لیکن تمام تر دعائیں کرنے باوجود نہ سکول بند ہوتے تھے نہ ہی سڑکیں بند ہوتی تھیں۔

اسلام آباد کو بساتے وقت یہ چیز ذہن میں رکھی گئی کہ یہاں پر قدرتی آبی گزرگاہوں کا موثر طریقے سے آبی روانی کے لیے استعمال کیا جائے۔ اسی طرح نکاسی آب کا نظام موثر بنایا گیا تھا۔ ایک بار پرویز مشرف کے دور میں طوفانی بارش کا واقعہ ہوا تھا جب سڑکوں پر سیلابی صورت حال پہلی بار دیکھی، ورنہ اس سے پہلے شہر کو کبھی پانی کے ہاتھوں مفلوج نہیں دیکھا تھا۔

وقت گزرتا گیا لیکن اس طرح سےاس شہر میں کام نہیں کیا گیا۔ شہر بےہنگم طور تو بڑھ گیا جس میں نئی تعمیرات شامل ہیں، جن میں سڑکیں انڈرپاس، ایونیو اور بلیو ایریا میں اونچی اونچی عمارتیں شامل ہیں۔

میں نے اسلام آباد میں ان حالیہ سالوں میں کوئی نئے پارکس، کوئی نئے باغات، کوئی نئی پانی کی پائپ لائن یا عوام کے لیے سرکاری ہاؤسنگ سکیم بنتے نہیں دیکھی۔ صرف سڑکیں یا نجی شعبے کی عمارتیں اور سوسائٹیاں ہی وجود میں آئیں۔ ان سب کاموں میں اسلام آباد کی ایکولوجی بری طرح متاثر ہوئی۔

جس شہر میں درجہ حرارت 35 سے اوپر نہیں جاتا تھا وہاں اب درجہ حررات 40 سے اوپر چلا جاتا ہے۔ سردی سکڑ گئی اور گرمی طویل شدید ہو گئی ہے۔ وہ پھولوں تتلیوں سبزے والا  اسلام آباد میرے ماضی کی ایک یاد بن کر رہ گیا۔ اب تو ایک سیکٹر سے دوسرے سیکٹر میں جانے کے لیے ایونیو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ایک پل پار کرکے ہی ہم دوسرے سیکٹر میں جا سکتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے شہریوں اور شہر کے درمیان مزید فاصلے آ گئے ہیں۔ اسلام آباد میں جتنی بھی شدید بارش ہوتی تھی کام نہیں رکتا تھا۔ پانی نہیں جمع ہوتا تھا نہ سڑکیں سیلاب بنتی تھیں۔ ہم شدید بارش میں سکول جاتے تھے۔ ٹیچر کھڑکیاں بند کرواکے پڑھائی کا عمل جاری رکھتی تھیں۔ کھیل کا میدان بارش کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں ہوتا تھا تو ہمیں جمنزیم لے جایا جاتا تھا۔

پر زیادہ مزہ تو چھٹی کے وقت آتا جب گاڑیوں میں بیٹھنے سے پہلے ہم گرم گرم بھٹہ کھاتے تھے اور ایک دوسرے کو بارش میں بھگو کر ہی چین لیتے تھے۔ گھر واپسی پر سوجی کا حلوہ اور پکوڑے تیار ملتے تھے اور پھر سارے دن کی تھکن اتارنے کے لیے کمبل اوڑھ کر سو جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شام کو پھر ایک نیا مشن ہوتا کہ گھر سے متصل پارک میں جھولے لینے ہیں اور خود کو کیچڑ سے بچا کر کھیلنا بھی ایک آرٹ تھا۔

پر اب سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے، بارش زحمت بن کر گھروں میں گھس جاتی ہے، سکول جانے کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ شہر میں نئی تعمیرات تو بنیں لیکن نکاسیِ آب اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

ایک ایسا شہر جہاں ہر ماہ زلزلے آتے ہو وہاں کھمبیوں کی طرح بلند عمارتیں اگ آئیں۔ اسی طرح جہاں اتنی شدید بارشیں ہوتی ہو وہاں کوئی فورس ہی نہیں جو شہریوں کی مدد کرتی ہو۔

جب بھی بارش ہوتی ہے ہم سب قدرت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ پانی میں پھنس جائیں یا گھر میں پانی آ جائے اپنی مدد خود ہی کرنا ہوتی ہے۔

ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاں نا ابتدائی طبی امداد کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں نہ ہی پانچ دریا ہونے کے باوجود یہاں تیراکی سیکھانے کا رواج ہے۔

اسلام آباد میں پیر کے روز مسلسل دو گھنٹہ بارش ہوئی جس کی وجہ سے سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔ اتنی تیز اور شدید بارش تھی کہ مجھے خوف محسوس ہونے لگا۔ یہ خوف فطری تھا کیونکہ باقی ملک جو سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ کراچی کمپنی جی نائن مرکز اور جی الیون مرکز بارش میں ڈوب گئے۔ لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر ٹریفک جام میں پھنس گئی۔

ان شاہراوں پر نہ کوئی پیٹرول پمپ ہیں نا ہی باتھ رومز اور ٹک شاپ موجود ہیں۔ اگر آپ وہاں پھنس جائیں تو صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ گاڑیوں، بیسمنٹس میں داخل ہو گیا۔ تجارتی مراکز میں یہ پانی دوکانوں اور گوداموں میں تباہی مچا گیا اور تاجروں کی کوئی شنوائی نہیں۔ تمام لوگ یہ سوال کرنے لگے کہ پہلے بھی یہاں متواتر بارشیں ہوا کرتی تھیں لیکن کبھی ایسا سیلابی صورت حال نہیں ہوتی تھی۔ اب ایسا کیا ہو گیا کہ نئے منصوبوں میں نکاسی آب کا خیال نہیں رکھا گیا یا اسلام آباد کے اندر موجود قدرتی نالوں کو صاف نہیں کیا جا رہا؟

موسمیاتی تبدیلی یا درخت کاٹنے کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے۔ اب جب بارش آتی ہے شہریوں کا نقصان ہوتا ہے۔ پیر کے روز کسی کے شیشے ٹوٹے، کسی کے گھر میں پانی داخل ہوا، کسی کی گاڑی ڈوب گئی تو رہی سہی کسر زلزلے نے پوری کر دی۔

کچھ لوگ انڈرپاس سے پانی نکلنے کا انتظار کرتے رہے تو کچھ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہنے کے بعد گھروں کو پہنچے۔ ہمیں اسلام آباد میں فوری طور پر جدید نکاسی آب اور مزید درختوں کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کو مزید پل انڈرپاس نہیں چاہییں۔ اسلام آباد کا قدرتی حسن تباہ ہو رہا ہے یہاں موسموں کا نظام بگڑ رہا ہے، کیونکہ یہاں بےدریغ درخت کاٹے گئے ہیں۔ یہاں پر فوری طور پر نئے باغات اور درختوں کی ضرورت ہے کیوں کہ باغ پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور درخت سیلاب کے بہاؤ کو کم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ موسم کو بھی خوشگوار رکھتے ہیں۔

ایک ہیلپ لائن یا فورس ہونی چاہیے جو ایسی صورت حال میں شہریوں کی مدد کرے تاکہ ان کو یہ احساس رہے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے شجرکاری اور نکاسی آب پر توجہ نہیں دی تو مزید نقصانات مستقبل میں ہمارے منتظر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات