خیبر پختونخوا: ’پراسرار‘ وائرس سے ٹراؤٹ مچھلیاں مرنے لگیں

متاثرہ علاقوں میں بالاکوٹ، کاغان، ناران، بھونجہ ویلی، شینو سمیت ضلع مانسہرہ کے دیگر علاقے شامل ہیں، جہاں 2021 میں پہلی مرتبہ وائرس نے مچھلیوں پر حملہ کیا۔

تحصیل بالا کوٹ کے ایک فارمر اسرار احمد  جن کے 42 تالاب ہیں، اب تک ان کا 35 لاکھ کا نقصان ہوا ہے (انیلا خالد)

صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹراؤٹ مچھلی کی فارمنگ سے جڑے افراد کا کہنا ہے کہ ایک ’پراسرار وائرس‘ سے ٹراؤٹ مچھلیاں مر رہی ہیں جس کی وجہ سے انہیں کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

مچھلیوں کے کاروبار سے منسلک افراد نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس معاملے پر بروقت توجہ نہ دی تو فارمرز یہ کاروبار مستقل طور پر چھوڑ دیں گے۔

کاغان کے فارم مالک نزاکت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مسئلہ صرف تالاب کی مچھلی (فارمی مچھلی) کا نہیں لگ رہا، کیونکہ اس سے قبل ناران میں دریائے کنہار کے کنارے بھی کئی مچھلیاں مردہ حالت میں پڑی ملی ہیں۔‘

دوسری جانب اس حوالے سے متعلقہ ڈی جی فشریز کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم نے ’دریا سے بھی نمونے اکھٹے کیے ہیں، تاکہ مسئلے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔‘

وائرس سے متاثرہ علاقوں میں ضلع مانسہرہ کے تمام سیاحتی مقامات جن میں بالاکوٹ، کاغان، ناران، بھونجہ ویلی، شینو اور دیگر علاقے شامل ہیں، جہاں 2021 میں پہلی مرتبہ ’پراسرار وائرس‘ نے مچھلیوں پر حملہ کیا۔

فارم مالکان کا کہنا ہے کہ 2021  میں بےتحاشہ نقصان ہونے کے باوجود وہ اس امید میں تھے کہ لیبارٹری ٹیسٹ اور دوا کھلانے سے یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ تاہم مختلف لیبارٹریوں میں ٹیسٹ اور ہر قسم کی دوائیں کھلانے کے عمل سے گزر کر بھی ہر سال وائرس اسی وقت پر وارد ہو جاتا ہے، جس نے اب فارمرز کے ’حوصلے پسپا‘ کر دیے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا محکمہ فشریز کے ڈائریکٹر جنرل خسرو کلیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں مسئلے کی حساسیت کا احساس ہے اور ان کی ایک ٹیم حالات کا جائزہ لینے کے بعد نمونے اکھٹے کرکے آج چھ جون کو پشاور میں آبی حیات ریسرچ سینٹر بھجوا چکی ہے۔

’تحقیق کے بعد بیماری کا ادراک ہو سکے گا، ساتھ ہی ہم نے جاپان کے ایک ماہر آبی حیات جو ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں پشاور آ رہے ہیں، ان سے اس معاملے پر تعاون حاصل کرنے اور نمونے جاپان لے جانے کی درخواست کی ہے۔‘

کاغان میں فش فارمنگ سے وابستہ نزاکت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے کل 35 تالاب ہیں اور اب تک انہیں دو کروڑ روپے کے لگ بھگ نقصان ہوا ہے۔

’2021 میں پہلا حملہ ہوا، اور پہلے ہی سال پچاس فیصد سے زائد مچھلیاں مرگئی تھیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ تب وائرس کا حملہ صرف ایک سال کی مچھلی پر ہوا تھا۔ لیکن اب چھوٹی بڑی تمام مچھلیاں بیمار پڑنے لگی ہیں۔ جو مرنے کے بعد تالاب کی تہہ میں چلی جاتی ہیں۔‘

نزاکت کے مطابق پہلے ہونے والے نقصان کے بعد اب ’جب تک حکومت مسئلے کا حل نہیں نکال پاتی وہ اس کاروبار سے دور رہیں گے۔‘

نزاکت حسین کا کہنا ہے کہ ’ضلع مانسہرہ میں ٹراؤٹ  فارمنگ کی افزائش کے لیے مچھلیاں سوات،  گلگت، اور بلتستان سے خریدی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ مچھلیاں بنیادی طور پر دریا سے آتی ہیں، لہذا ان میں وائرس اور بیماریوں کا خدشہ رہتا ہے۔‘

تحصیل بالا کوٹ کے ایک فارمر اسرار احمد  جن کے 42 تالاب ہیں، اب تک ان کا 35 لاکھ کا نقصان ہوا ہے۔

اسرار احمد کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کا تمام انحصار ٹراؤٹ مچھلی پر ہے، اور اگر  اگلے سال بھی یہی مسئلہ برقرار رہا تو وہ یہ نقصان برداشت نہیں کر پائیں گے۔

’میرے تین بیٹے بھی اسی کاروبار کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہر طرح کے ٹیسٹ کروائے، اینٹی بائیوٹیک اور انرجی کی دوائیں کھلائیں لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ کینیڈا میں بھی ایسا مسئلہ پیش آیا تھا، لیکن ان کی حکومت نے آگے بڑھ کر تمام تالاب توڑ کر نئے بنوائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات