ماحولیاتی تبدیلیاں: ’مستقبل میں شاید مچھلی نہ ملے‘

ماہرینِ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے سمندر کا ماحولیاتی نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔

بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیاں زمین کے ساتھ ساتھ سمندر کے اندرونی ماحول کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔

ان تبدیلیوں کی وجہ سے آبی حیات کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور سمندر سے روزگار کمانے والے افراد کا گزر بسر بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

مختلف وجوہات بالخصوص بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور نرسریز ختم ہونے کے باعث آبی مخلوق کی تعداد ہرسال کم تر ہوتی جا رہی ہے۔

ماہی گیری سے روزگار کمانے والے سلیمان احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا، ’بیس، پچیس سال قبل مچھلی زیادہ تھی، اُس وقت اتنی مچھلی ہوتی تھی کہ ہم کراچی کے اندر سے ایک رات میں دو، دو کشتیاں بھرتے تھے، اب وہ حساب نہیں، اب ہم بلوچستان میں گوادر تک جاتے ہیں پھر بھی اتنی مچھلی نہیں لگتی۔‘

سفید داڑھی والے 40 سال سے زائد عمر کے سلیمان احمد کا کہنا تھا کہ ’مچھلی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے، اور اب پہلے جیسی صورت حال نہیں رہی۔‘

سمندر میں مچھلیاں کم ہونے کی وجہ پوچھنے پر اس عمررسیدہ ماہی گیر نے بتایا، ’سمندری آلودگی اس کی ایک بڑی وجہ ہے، پلاسٹک کی تھیلیاں مچھلی کے لیے بہت خطرناک ہیں۔‘

اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوتے ہوئے انہوں نے کہا، ’ہو سکتا ہے آئندہ 20، 25 برس بعد سمندر میں کوئی مچھلی نہ ملے، اس لیے ہم سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرکے باہر جائیں یا کوئی اور کام کریں۔ کیوں کہ آگے چل کر وہ بھوک سے مریں گے۔‘

’ماہی گیروں کا قتل عام‘

ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق کے مطابق ’مچھلیوں کی نرسریوں کا ختم کیا جانا بھی اس سمندری مخلوق کی تعداد میں کمی ایک بڑی وجہ ہے۔‘

انہوں نے بتایا، ’مینگروز میں مچھلی اور جھینگے  کی افزائش نسل ہوتی ہے، وہ یہاں انڈے دیتے ہیں لیکن انہیں بے دردی سے کاٹا جا رہا ہے۔

’انہیں کاٹ کر گیس کی جگہ ایندھن کے طور پر جلایا جا رہا ہے۔ مینگروز کی کٹائی ماہی گیروں کا قتل عام ہے۔‘

سول سوسائٹی آرگنائزیشن پاکستان فشر فورک فورم کی میڈیا کوارڈینیٹر ماہم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف ماہی گیروں بلکہ غذائیت کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ پاکستان سے مچھلی دوسرے ممالک بھی برآمد کی جاتی ہے، تو یہ عالمی سطح پر غذائیت کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ سمندر کے ساتھ بھی انڈے دینے والی اس مرغی جیسا سلوک کیا جا رہا ہے جس کو ایک ہی بار ذبح کر دیا جائے۔ ہمیں اس کو بچانا ہو گا، تاکہ مستقبل میں بھی سمندری خوراک میسر رہے، ایسا نہ ہو کہ یہ ناپید ہو جائے۔‘

پاکستان میں وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایک شعبہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کے ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں سمندروں میں تیزابیت بھی بڑھ رہی ہے۔

دستیاب تازہ ترین معلومات کے مطابق گھریلو سیوریج اور صنعتوں کا گندا پانی سمندر میں گرنے سے، کراچی کے ساحل کے قریب سمندری پانی کی تیزابیت بلوچستان کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلیوں اور دیگر آبی حیات میں پائے جانے والے مائیکرو پلاسٹک کی مقدار میں نمایاں اضافہ کے ساتھ ساتھ دیگر آلودگیاں بھی پائی جا رہی ہیں جو انہیں کھانے والوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ’ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سمندر کا ماحولیاتی نظام تباہی کے دہانے پر ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر اعجاز احمد نے بتایا کہ ’بالخصوص کراچی کے سمندر میں صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی آبی حیات کو کئی طریقوں سے متاثر کر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سمندر میں پائے جانے والے جانداروں کی افزائش کی نرسریاں متاثر اور ان خوراک بھی ذہریلی ہو رہی ہے۔

’مچھلی کی خوراک میں شامل زہریلا مادہ انسانی خوراک کا بھی حصہ بن رہا ہے، جو لوگ سمندری خوراک زیادہ استعمال کرتے ہیں، انہیں دیگر کی نسبت خطرناک بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘

کلائمیٹ چینج اینڈ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ کی ماہر فاطمہ یامین کا کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے زمین گرم ہو رہی ہے، سمندری پانی کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے، جو کہ بہت سارے آبی جانداروں کے لیے خطرناک ہے۔‘

انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ’سمندر جب گرم ہوتا ہے تو پورا کلائمٹ سسٹم متاثر ہوتا ہے۔

’ مرجان، جوکہ مچھلیوں کے لیے اہم نرسریز کا کام کرتے ہیں، پوری دنیا میں مر رہے ہیں، جس سے مچھلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‘

کلائمٹ چینج اینڈ ڈیزاسٹرمنیجمنٹ میں ایک دہائی سے زائد تجربہ رکھنے والی ماہر کا کہنا ہے کہ ’سمندری ماحولیات متاثر ہونے سے آبی حیات کا تناسب بھی بگڑ رہا ہے۔‘

 مثال کے طور انہوں نے بتایا، ’مرجان اور تیمر کے جنگلات ختم ہونے کے باعث مچھلیوں اور جھینگے کی پیداوار میں کمی آچکی ہے۔ اس سے انسانوں اور سمندر میں موجود بڑی مچھلیوں کے لیے بھی خوراک کا مسئلہ پیدا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات