ہمیں صحت کارڈ نہیں، محفوظ سمندر چاہیے: گوادر کے ماہی گیر

بلوچستان حکومت نے ماہی گیروں کو صحت کارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہیں سمندر میں ہونے والے غیرقانونی شکار سے بچایا جائے۔

بلوچستان کے ساحلی علاقے گوادر کے ماہی گیروں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے حکومت بلوچستان نے صحت کارڈ کے اجرا کی منظوری دی ہے، جس کے تحت محکمہ ماہی گیری سے رجسٹرڈ ماہی گیروں کو یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔

تاہم ماہی گیر کہتے ہیں کہ انہیں صحت کارڈ کے بجائے سمندر میں آزادی سے شکار کی سہولت مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔

گوادر کے علاقے سپت سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر دل بود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماہی گیروں کو سمندر میں غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والوں سے مسائل کا سامنا ہے، جو ممنوعہ جالوں کے ذریعے مچھلیوں کا بے تحاشا شکار کرتے ہیں، ان کو روکنا اس وقت ضروری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں محفوظ  سمندر دیا جائے، اس سے ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، سمندر غیر محفوظ ہونے سے ہمارا اور ہمارے بچوں کا روزگار داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘

اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر دل گنج بھی صحت کارڈ کے بجائے اپنے روزگار کا تحفظ چاہتے ہیں، انہیں بھی سمندر میں غیر قانونی شکار پر تحفظات ہیں۔

دل گنج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے ہمیں صحت کارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ملے گا، ہمارا سمندر غیر محفوظ ہے، اسے بچایا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے دریا (سمندر) میں غیر قانونی شکار ہو رہا ہے، جس سے ہمارا قدیمی روزگارختم ہو رہا ہے، ہمیں شکار نہیں ملتا ہے، یہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔‘

حکومتی اعداد وشمار کے مطابق محکمہ ماہی گیری  بلوچستان کے ساتھ رجسٹرڈ ماہی گیروں کی تعداد تقریباً 90 ہزار ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے صحت کارڈ کی منظوری محکمہ ماہی گیری و ساحلی ترقی کی طرف سے ارسال سمری پر دی۔

 محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری خبر میں بتایا گیا کہ پہلے مرحلے میں گوادر اور دوسرے مرحلے میں ضلع لسبیلہ اور حب کے ماہی گیروں کو ہیلتھ کارڈ کا اجرا ہو گا۔ ہیلتھ کارڈ کی منظوری سے ساحلی پٹی سے وابستہ ماہی گیروں کے طبی مسائل و مشکلات کا ازالہ ممکن ہو گا۔

ادھر گوادر کے ماہی گیروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے رہنما آدم قادر بخش سمجھتے ہیں کہ ماہی گیروں کو اس وقت صحت کارڈ کی نہیں بلکہ ان کے روزگار کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔

آدم قادر بخش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت گڈانی سے لے کر ضلع گوادر تک سمندر غیر محفوظ ہے اور غیر مقامی لانچیں ممنوعہ جال گجہ کے ذریعے مچھلیوں کا آزادانہ شکار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کا مقصد گوادر کے ماہی گیروں کے جذبات کو صحت کارڈ کے ذریعے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس وقت ماہی گیروں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گوادر کے ساحلی علاقوں میں حکومت نے 12 ناٹیکل میل کی حدود میں مچھلیوں کے شکار پر پابندی عائد کی ہے، تاہم ماہی گیروں کا دعویٰ ہے کہ حکومتی پابندی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

ادھر گوادر کے علاقے پسنی کے ماہی گیر حکومت کی طرف سے صحت کارڈ کے اجرا سے خوش ہیں، تاہم وہ کہتے ہیں کہ کارڈ غریب اور مستحق لوگوں کو ملنا چاہیے۔

پسنی کے ماہی گیر ناخدا رشید نے بتایا کہ ’حکومتی اقدام خوش آئند ہے، تاہم ہمیں خدشہ ہے کہ کارڈ سیاست کی نذر نہ ہو جائے، حکومت کو چاہیے کہ کارڈ ماہی گیروں کو ملنا یقینی بنائے۔

رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان کے ماہی گیر مشکلات سے دوچار ہیں، صحت کارڈ کا اجرا حکومت کا اچھا قدم ہے، اس کو سیاست سے پاک کیا جائے اور حق داروں کو دیا جائے۔

ناخدا رشید نے کہتے ہیں کہ ’اگر حکومت نے صحت کارڈ دینا ہے تو سیاسی جماعتوں کے توسط سے نہ دے بلکہ براہ راست ماہی گیروں کو دیا جائے تاکہ ان کے صحت کے مسائل حل ہو سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر یہ کارڈ غیرماہی گیروں کو ملے گا تو ان کو فائدہ ہو گا اور اس کو سیاست کی نظر کیا گیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

رشید کہتے ہیں کہ ماہی گیر کا روزگار سمندر سے وابستہ ہے اور وہ صرف اپنا پیٹ پالتے ہیں، ان کو صحت کارڈ سے ان کو اپنا علاج معالجہ کرانے میں مدد ملے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان