’گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیں گے‘

وزیر اعظم عمران خان کا آج اپنے ٹوئٹر بیان میں کہنا تھا کہ انہوں نے گوادرمیں ہونے والے احتجاج اور پیش کیے جانے والے مطالبات کا نوٹس لے لیا ہے۔

بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا احتجاجی دھرنا 28  روز  سے جاری ہے(تصویر/ رمیشہ علی/انڈپینڈنٹ اردو)

وزیر اعظم عمران خان کا آج اپنے ٹوئٹر بیان میں کہنا تھا کہ انہوں نے گوادرمیں ہونے والے احتجاج اور پیش کیے جانے والے مطالبات کا نوٹس لے لیا ہے۔

اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انہوں نے کہا کہ ’میں نے گوادر کے محنتی ماہی گیروں کے انتہائی جائز مطالبات کا نوٹس لیا ہے۔ ٹرالروں سے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت ایکشن لیں گے اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے بھی بات کریں گے۔‘

بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کا احتجاجی دھرنا 28 ویں روز بھی جاری رہا۔

وزیر اعظم عمران خان کے بیان کے جواب میں مولانا ہدایت الرحمن نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’بہت شکریہ وزیراعظم صاحب! دیر آید درست آید صوبائی حکومت ہمارے مطالبات جائز مانتی ہے۔ صوبائی وزرا بارہا اظہارکرچکے، کچھ نوٹیفیکیشنز بھی جاری کیے، مگر ان پر عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا۔ آپ کےنوٹس کا خیرمقدم کرتےہیں۔ مجھے امید ہےکہ اب حق دو تحریک کے مطالبات پر عملدرآمد ہوتا نظر آئےگا۔‘

تحر یک کی جانب سے آج گوادر میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن میں گوادر کے علاوہ مکران کے مختلف علاقوں سے لوگ بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔

15 نومبر سے شروع ہونے والے اس احتجاج میں مقامی افراد جماعت اسلامی بلوچستان کے صوبائی سیکٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ 

مولانا ہدایت الرحمن نے 10 دسمبر کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا  کہ ’ہمارے مطالبات بڑے نہیں ہیں۔ ہم سی پیک کی مد میں موٹر وے نہیں مانگ رہے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ گوادر اور مکران کی سڑکوں پر ٹائل لگائیں یا سنگ مرمر کے روڈ بنا دیں اور نہ ہی یہ کہ ہمیں ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ دھرنا جاری رہے گا۔ ہم پاکستانی شہری ہیں اور ہم اپنے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

احتجاج تحریک کے مطالبات کیا تھے

پہلا مطالبہ

مولانا ہدایت الرحمن نے اس تحریک میں اپنے پہلے مطالبے کے حوالے سے بتایا کہ ’ہمارے مطالبات ہیں کہ ’جو سمندر ہے اور 750 کلومیٹر کا ساحل ہزاروں سالوں سے ہمارے آبا و اجداد کے روزگار کا ذریعہ ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ٹرالر مافیا سمندری حیاتیات کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہاں غیر قانونی ماہی گیری اور ممنوعہ جال استعمال کر رہے ہیں جس کے باعث سمندر میں مچھلیاں ختم ہوگئی ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’اسی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ہماری مدد کرنے کے لیے حکمران ہم سے ٹیکس لیتے ہیں تو ہم انہیں ٹیکس دیں گے مگر خدا کے لیے ہمارے روزگار پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے۔‘

دوسرا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے پانچ اضلاع پاک ایران سرحد پر ہیں۔ ایران ہمارا اسلامی برادر ملک ہے جہاں سے ہماری اشیائے خرد و نوش اور ان پانچ اضلاع کی بجلی حاصل کی جاتی ہیں۔ بارڈر کی بندش کی وجہ سے گوادر میں لاکھوں افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر سکیورٹی ضروری ہے تو کریں مگر آزادانہ اور باعزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔‘

تیسرا مطالبہ

حق دو بلوچستان کو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کا کہنا تھا کہ ’ہمارے تعلیمی ادارے، ہسپتال، تفریحی مقامات، میدان، گھروں کے اندر اور اوپر اور سمندر کے کنارے چیک پوسٹیں ہیں۔ کیا ہم آزاد شہری ہیں یا ہم جیل میں رہ رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کردیا جائے۔‘

چوتھا مطالبہ

مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ ’بلوچستان کے 10 لاکھ نوجوان منشیات کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں دن میں روشنی میں منشیات کا کاروبار ہو رہا ہے۔ بلوچستان میں منشیات سمندر اور زمینی راستے سے آتی ہیں۔ اگر یہاں بازار میں منشیات بک رہی ہیں تو کہیں سے تو آرہی ہیں۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ’منشیات کی روک تھام میں ہمارے ادارے ناکام ہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں منشیات کے کاروبار کو روکا جائے۔‘

اب تک کیے جانے والے حکومتی اقدامات

اس حوالے سے رواں ہفتے بلوچستان کے وزیر منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حکام مظاہرین کے زیادہ تر مطالبات پر عمل کر چکے ہیں۔

ظہور احمد بلیدی کے مطابق مظاہرین نے 12 مطالبات پیش کیے ہیں جن میں سے چار بڑے جب کہ باقی جزوی مطالبات ہیں۔ تمام 12 مطالبات پر پیش رفت ہو رہی ہے۔ سمندر میں ٹرالنگ میں کافی کمی آ چکی ہے جب کہ بارڈر ٹریڈ مینیجمنٹ کا نظام بھی بہتر ہو رہا ہے اس کے علاوہ چیک پوسٹوں کے معاملے پر بھی بڑی حد تک کام ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب نو دسمبر کو کوئٹہ میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی ہدایت پر گوادر میں غیر قانونی ٹرالنگ کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا تھا۔

اجلاس کے دوران چیف سیکرٹری مظہر نیاز رانا نے بتایا تھا کہ ’صوبائی حکومت گوادر میں غیر قانونی فشنگ کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات اٹھا رہی ہے اور جلد ہی غیر قانونی ٹرالنگ کی روک تھام ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’حکومت سندھ اور میری ٹائم اس بات کو یقینی بنائیں کہ سندھ سے آنے والے ماہی گیروں پر پابندی عائد کی جائے تاکہ وہ بلوچستان کے علاقے میں ماہی گیری نہ کریں۔‘

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ گوادر میں غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا جو ماہی گیری کے لیے لیگل فریم ورک، انفورسمنٹ، ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور وے فارورڈ دیکھے گا اور ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گا۔

اس سے قبل بھی حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے احکامات کی روشنی میں گوادر دھرنا مظاہرین کے مطالبات پر عمل درآمد جاری ہے جس کے تحت غیر قانونی فشنگ ٹرالرز پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ماہی گیروں کے مسائل کے حل کے لیے ڈی جی فشریز کے مرکزی دفتر کو فی الفور کوئٹہ سے گوادر منتقل کر دیا گیا ہے اور غیر قانونی ٹرالنگ روکنے کے لیے محکمہ فشریز اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کے لیے ٹوکن سسٹم کا خاتمہ کردیا گیا ہے اور اب ماہی گیر بغیر کسی اجازت کے سمندر میں آ جاسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ گوادر میں تمام ’غیر ضروری‘ چیک پوسٹوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان