حق دو تحریک: گوادر میں دھرنا جاری، کوسٹل ہائی وے پر بھی احتجاج

بلوچستان کےشہر گوادر میں کئی روز سے زندگی کےمختلف شعبوں سےتعلق رکھنےوالے افراد دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جو ماہی گیروں کی آزادانہ سمندر تک رسائی،کوسٹ گارڈ کی طرف سے تنگ کرنے اورسرحد پرکاروبارکی بندش کاخاتمہ چاہتے ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی شہر اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے مرکز گوادر میں 18 روز سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے تحت دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور مطالبات تسلیم نہ ہونے پر آج (جمعرات کو) صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔

احتجاج کرنے والے یہ افراد ماہی گیروں کی آزادانہ سمندر تک رسائی، کوسٹ گارڈ کی طرف سے تنگ کرنے، گاڑیوں کو پکڑنے اور سرحد پر کاروبار کی بندش کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

دھرنے کے منتظمین سے حکومتی وزرا کے مذاکرات کے متعدد دور ہوچکے ہیں اور بعض مطالبات کی منظوری کے نوٹیفکیشن بھی فراہم کیے گیے، تاہم ابھی تک منتظمین ان دعوؤں سے مطمئن نظر نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ دھرنا اب بھی جاری ہے۔

دھرنے کے مرکزی رہنما مولانا ہدایت الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ کسی صوبائی وزیر سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ اب وہ صرف وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو، چیف سیکرٹری اورکورکمانڈر بلوچستان سے ہی بات چیت کریں گے۔

انہوں نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ ’آج کوسٹل ہائی وے اور گوادر، پنجگور سمیت گوادر کے دیگر علاقوں میں احتجاج ہو رہا ہے۔ کوسٹل ہائی وے بلاک ہے جبکہ گوادر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے چار نوٹیفکیشن سامنے لائے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کروا سکی۔ رات کو ہونے والے مذاکرات میں سرحدی معاملات کے حوالے سے ہمارے مطالبے پر ایک ہفتے اور دیگر معاملات پر تین ماہ کی مہلت طلب کی گئی۔ اب ہم کوئی مہلت نہیں دیں گے۔ دھرنا جاری رہے گا۔‘

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’ہم پورے مکران میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کی رپورٹ جاری کریں گے۔ ہمارے بڑے مطالبات پر سو فیصد عملدرآمد ہونے تک ہم دھرنا ختم نہیں کریں گے۔‘

احتجاج میں گوادر کے ایکسپریس وے کو بھی بند کرنے کا فیصلہ شامل تھا، تاہم گذشتہ رات حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے بعد مولانا ہدایت الرحمان نے دھرنے کو بتایا تھا کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے، تاہم دوسرا اعلان برقرار ہے۔

رات گئے ہونے والے مذاکرات جو صوبائی وزیر ظہوربلیدی کی قیادت میں وفد نے کیے، کے دوران مظاہرین کے مطالبات کے حوالے سے موقف سامنے رکھا گیا تھا۔

اس حوالےسے مولانا ہدایت الرحمان نے رات گئے دھرنے کے شرکا کو بتایا تھا کہ حکومتی وفد سے بات چیت کے دوران انہوں نے مطالبات کے حوالے سے اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومتی وفد نے یقین دلایا ہے کہ آج کوسٹ گارڈ کی طرف سے پکڑی جانے والی تمام گاڑیوں کو چھوڑ دیا جائے گا جبکہ کسٹم حکام تحویل میں لی گئی لانچوں کو بھی واپس کردیں گے۔

مولانا ہدایت نے بتایا کہ حکومتی وفد نے سرحدی امور کے حوالے سے دو ہفتوں کا وقت طلب کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس حوالے سے اپنے لائحہ عمل کے حوالے سے مشاورت کے بعد جواب دیں گے، جس کے لیے اپنے تمام دوستوں جن میں  کیچ اور پنجگور کے ساتھی بھی شامل ہیں، سے مشاورت کی جائے گی۔‘

اس سے قبل مولانا ہدایت الرحمان سے مذاکرات کرنے والے حکومتی وفد میں شامل صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا کے اکثر مطالبات پر عمل ہوگیا ہے۔

ظہور بلیدی نے کہا تھا کہ ’غیرقانونی ٹرالنگ، سرحد پر ٹوکن سسٹم، سکیورٹی چیک پوسٹوں کے حوالے سے ہم پہلے سے کام کررہے ہیں اور شراب خانوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے۔ کچھ مطالبات کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے، جس کے لیے ہمیں مزید وقت چاہیے۔‘

دوسری جانب مولانا ہدایت الرحمان نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ ’ہم کسی بھی زبانی معاہدے پر یقین نہیں کریں گے۔ جو بھی ہوگا اس کے لیے باقاعدہ دستاویزات بنیں گی۔ تاہم اگر معاہدوں کے بعد بھی کسی بلوچ کو مکران میں تنگ کیا گیا تو ہمارا حکومت سے معاہدہ کالعدم ہوجائےگا۔‘

ادھر گوادر کے سماجی کارکن اور شہر میں تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ناصر رحیم سہرابی سمجھتے ہیں کہ یہ دھرنا شہریوں کی آواز اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر سامنے آیا ہے۔

ناصر سہرابی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’مولانا ہدایت الرحمان ان مطالبات کے لیے ہر جگہ یہ بات کر رہے تھے۔ انہیں بعض لوگ پہلے حیثیت نہیں دیتے تھے، لیکن اب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہی ان کی آواز کو بہتر طریقے سے بلند کرنے والے شخص ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ ترقی کے جو نعرے لگائے گئے، وہ سب ان کے مسائل کے حل کی بجائے روزگار چھیننے کا باعث بنے ہیں، جس سے وہ مایوسی کا شکار ہوگئے تھے۔‘

دھرنے میں ماہی گیر کیوں شریک ہیں؟

ناصر سہرابی کے مطابق گوادر میں اکثر لوگوں کا روزگار ماہی گیری سے وابستہ ہے، جن کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے، جن میں سمندری راستوں کی بندش اور غیر قانونی ٹرالنگ شامل ہے۔ بعض مسائل کے حل کے لیے ماہی گیر اتحاد نے خود احتجاج کرکے مطالبات منوائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ماہی گیروں کا اہم مسئلہ جو کئی سالوں سے چلا آرہا ہے، وہ غیر قانونی ٹرالنگ ہے۔ جس سے ان کا روزگار چھن رہا ہے اور وہ سمندر سے خالی ہاتھ لوٹ رہے ہیں۔ کیوں کہ غیر قانونی ٹرالنگ کرنے والے ان کی تمام مچھلیوں کا شکار کرلیتے ہیں۔‘

بقول ناصر: ’یہی وہ مسائل ہیں، جنہوں نے ان ماہی گیروں کو دھرنے میں شرکت پر مجبور کیا اور وہ سمجھتے ہیں کہ مولانا ہدایت ہی ان کے دیرینہ مسائل کا حل نکال سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ماہی گیروں کو سمندر کی طرف جانے کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے کاغذات چیک کرنے اور شناختی کارڈ دکھانے کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ چوں کہ ان کے شکار کا کوئی مخصوص وقت نہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے سےانہیں نجات ملے۔‘

ناصر کہتے ہیں کہ ’یہ تحریک ایک دن کی نہیں بلکہ گذشتہ چار سے پانچ ماہ سے جاری ہے، جو اپنی بات کو سختی سے پیش کرتے رہے اور آخرکار انہوں نے دھرنے کا فیصلہ کیا۔ اب لوگ یہ سمجھ رہے کہ ان کے مسائل کا حل بھی اسی تحریک کے باعث نکلے گا۔‘

کیا یہ وقتی تحریک ثابت ہوگی؟

بلوچستان میں دھرنے اور احتجاج اکثر اوقات ہوتے رہتے ہیں۔ کیا یہ دھرنا بھی وقتی ہوگا؟ اس سوال پر ناصر کا کہنا تھا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے جو ایک منظم جماعت ہے۔ دوسری بات وہ عرصے سے سیاست کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے میں نہیں سمجھتا کہ یہ وقتی ثابت ہوگی۔‘

ناصر نے بتایا کہ گوادر کے عوام سیاسی جماعتوں سے بھی مایوس ہوچکے ہیں، جو شاید سخت حالات اور دباؤ کے باعث ان کے مطالبات کے حق میں کھل کر سامنے نہیں آئے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ تحریک جہاں ایک طرف عوام کی پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، وہیں یہ مستقبل میں یہاں پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے لیے بھی خطرےکا باعث ہے، جنہیں انتخابات کے دوران سخت صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

عوام کی کتنی حمایت؟

ناصر سہرابی کے مطابق اس دھرنے کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’عام آدمی کی رائے میں دھرنا درست سمت میں کام کر رہا ہے، تاہم بعض سیاسی کارکن سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر کوئی جماعت اس طرح کے دھرنے دے یا جلسہ کرے تو اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جاتا ہے، لیکن مولانا ہدایت کو کیوں کچھ نہیں کہا جاتا۔‘

گوادر میں خواتین کی ریلی تبدیلی کی علامت؟

’گوادر کو حق دو‘ تحریک کے تحت دھرنے کی حمایت میں گذشتہ دنوں ایک بڑی ریلی نکالی گئی تھی، جس میں صرف خواتین شامل تھیں۔ کیا یہ واقعی تبدیلی کی علامت ہے؟ اس سوال پر ناصر سہرابی نے کہا کہ مکران میں خواتین ہمیشہ سے متحرک رہی ہیں اور وہ بعض معاملات میں احتجاج ریکارڈ کرواتی رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ’تاہم گوادر کی ریلی اس حوالے سے منفرد اور مختلف ہے کہ ایک تو یہ نہ صرف مکران بلکہ شاید بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی تھی، جس میں ایک اندازے کے مطابق چار سے پانچ ہزار خواتین نے شرکت کی۔‘

اس وقت دھرنے کے شرکا سے حکومتی وفد کے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات سے انکاری نہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے وہ اس وقت کوئی فیصلہ کریں گے، جب ان کے مطالبات پر عمل ہوتا دکھائی گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان