انڈیا نے امریکہ پر اس وقت ’غیرمنصفانہ اور غیر معقول‘ طریقے سے نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی دہلی کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر محصولات بڑھانے کا اعلان کیا۔
امریکی صدر نے پیر کو کہا تھا کہ انڈیا رعایتی نرخوں پر روسی خام تیل خرید کر بھاری منافع کما رہا ہے جبکہ یوکرین میں جاری جنگ کو نظر انداز کر رہا ہے۔
انہوں نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا: ’انڈیا نہ صرف بڑے پیمانے پر روسی تیل خرید رہا ہے بلکہ اس کا بڑا حصہ دنیا بھر کی کھلی منڈیوں میں بھاری منافع پر فروخت بھی کر رہا ہے۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ روسی جنگی مشین یوکرین میں کتنے لوگوں کو مار رہی ہے۔ اسی وجہ سے میں انڈیا پر امریکہ کو ادا کیے جانے والے محصولات میں نمایاں اضافہ کروں گا۔‘
نئی دہلی نے جواب دیا کہ وہ ’اپنے قومی مفادات اور اقتصادی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔‘
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا: ’انڈیا کو نشانہ بنانا غیرمنصفانہ اور غیر معقول ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ خود امریکہ اور یورپی یونین اب بھی روس سے تجارت کر رہے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’یہ بات قابل غور ہے کہ وہی ممالک جو انڈیا پر تنقید کر رہے ہیں، خود روس سے تجارت میں ملوث ہیں۔ ہمارے معاملے کے برخلاف، ان کے لیے ایسی تجارت کوئی قومی مجبوری بھی نہیں۔‘
اس سے قبل انڈین حکومت کے دو ذرائع نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ انڈیا ٹرمپ کی دھمکیوں کے باوجود روسی تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے انڈیا کی روسی تیل کی خریداری پر تنقید اس وقت شدت اختیار کر گئی جب وہ نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنے میں ناکام رہا جس کے بعد امریکہ نے انڈین مصنوعات پر 25 فیصد درآمدی ٹیکس عائد کر دیا۔
روئٹرز کی جانب سے حاصل کیے گئے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق انڈیا روس سے سمندری راستے سے خام تیل خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے جس نے جنوری سے جون 2025 کے دوران روزانہ تقریباً 17 لاکھ 50 ہزار بیرل تیل درآمد کیا جو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2024-25 کے اختتام تک انڈیا نے تقریباً 38 ارب پاؤنڈ مالیت کا روسی تیل درآمد کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا، جو دنیا کا تیسرا سب سے بڑا تیل درآمد کنندہ اور صارف ہے، اپنی مجموعی خام تیل کی ضروریات کا 35 فیصد روسی تیل سے پورا کرتا ہے۔
2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد، جب یورپ نے روایتی تیل کی خرید بند کر دی، انڈیا روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن گیا۔ نئی دہلی کے حکام کے مطابق یہ ایک ’عالمی مارکیٹ کی صورت حال کے تحت مجبوری‘ میں لیا گیا اقدام تھا۔
پہلے سال کے دوران انڈیا نے روزانہ تقریباً 20 لاکھ بیرل روسی تیل درآمد کیا جو دنیا بھر میں فراہم ہونے والے مجموعی تیل کا تقریباً دو فیصد بنتا ہے۔ چین اور ترکی بھی روسی تیل کے بڑے خریدار تھے۔
2023 میں جب انڈیا کی روسی خام تیل کی درآمد سال بہ سال دگنی ہو گئی، اسی دوران اس نے یورپی یونین کو ریفائن کیا ہوا تیل ریکارڈ مقدار میں برآمد بھی کیا۔
رواں سال اپریل میں تیل کی خرید و فروخت پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے ’کپلر‘ کے مارکیٹ ڈیٹا سے ظاہر ہوا کہ انڈیا کی روسی تیل کی درآمد ممکنہ طور پر روزانہ 21.5 لاکھ بیرل تک پہنچ گئی، جو مئی 2023 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجموعی طور پر انڈیا نے مارچ 2025 تک مالی سال میں روزانہ اوسطاً 48 لاکھ 80 ہزار بیرل تیل درآمد کیا جو گذشتہ سال کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ تھا۔ روسی تیل کی درآمد 7.3 فیصد بڑھ کر روزانہ 17 لاکھ 60 ہزار بیرل ہو گئی، جس سے اس کا حصہ معمولی اضافے کے ساتھ 36 فیصد ہو گیا جبکہ اوپیک ممالک کا حصہ معمولی کمی کے ساتھ 48.5 فیصد پر آ گیا۔
مارچ 2025 میں امریکہ بھی روس، عراق اور سعودی عرب کے بعد انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا چوتھا بڑا ملک تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی غیر متوقع حکمت عملی نے نئی دہلی کے لیے ماسکو کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو متوازن رکھنا ایک بڑا چیلنج بنا دیا ہے۔
واشنگٹن کے ’سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز‘ میں انڈیا پروگرام کے سربراہ رچرڈ روسو نے کہا: ’انڈیا کی جانب سے روس سے توانائی اور دفاعی خریداری کا تسلسل ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ انڈیا محسوس کرتا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی روس کے حوالے سے کیا حکمت عملی ہو گی جو ہر ماہ ہی تبدل ہو رہی ہے۔‘
© The Independent