’ڈیلٹا کی موت‘: دریائے سندھ کا دہانہ سکڑ اور مر رہا ہے

ڈیلٹا کے اس علاقے میں دریائے سندھ بحیرہ عرب میں گرتا ہے لیکن سمندر کا کھارا پانی مسلسل دراندازی کرتے ہوئے یہاں کی کاشت کاری اور ماہی گیری پر انحصار کرنے والی بستیوں کو تباہ کر چکا ہے۔

25  جون 2025 کو لی گئی اس تصویر میں انڈس ڈیلٹا کے گاؤں کھارو چھان میں خالی اور ویران گھروں کو دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

جب حبیب ﷲ کھٹی اپنی والدہ کی قبر کی آخری زیارت کے لیے جا رہے ہوتے ہیں تو ان کے پاؤں کے نیچے نمک کی تہہ چٹخنے لگتی ہے۔ وہ یہ سب چھوڑ کر دریائے سندھ کے اس ڈیلٹا میں واقع اپنا خشک اور خالی گاؤں چھوڑنے والے ہیں۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ بحیرہ عرب میں گرتا ہے لیکن سمندر کا کھارا پانی مسلسل دراندازی کرتے ہوئے یہاں کی کاشت کاری اور ماہی گیری پر انحصار کرنے والی بستیوں کو تباہ کر چکا ہے۔

ساحل سے صرف 15 کلومیٹر دور سندھ کے ضلع سجاول کے قصبے کھارو چھان کے گاؤں عبداللہ میر بحار سے تعلق رکھنے والے حبیب ﷲ کھٹی نے اس بارے میں اے ایف پی کو بتایا: ’کھارا پانی ہمیں چاروں طرف سے گھیر چکا ہے۔‘

جب یہاں مچھلیاں نایاب ہو گئیں تو 54 سالہ حبیب ﷲ نے درزی کا کام شروع کیا لیکن جب گاؤں کے 150 میں سے صرف چار گھرانے باقی رہ گئے تو یہ کام بھی جاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ شام کو یہاں ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے اور آوارہ کتے سنسان لکڑی اور بانس کے خالی گھروں میں گھومتے ہیں۔

کبھی کھارو چھان کے آس پاس 40 کے قریب گاؤں ہوا کرتے تھے لیکن اب زیادہ تر سمندری پانی میں ڈوب چکے ہیں۔

سرکاری مردم شماری کے مطابق 1981  میں یہاں کی آبادی 26 ہزار تھی جو 2023 میں کم ہو کر 11 ہزار رہ گئی۔

اب حبیب ﷲ اپنے خاندان کے ہمراہ قریبی شہر کراچی منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں جہاں پہلے ہی انڈس ڈیلٹا سمیت کئی علاقوں سے معاش کی تلاش میں آئے لوگوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔

ماہی گیر برادری کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ’پاکستان فشر فوک فورم‘ کے مطابق ڈیلٹا کے ساحلی علاقوں سے ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

جناح انسٹی ٹیوٹ کی مارچ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ بیس برسوں میں پورے انڈس ڈیلٹا کے علاقوں سے 12 لاکھ سے زائد لوگ بے دخل ہو چکے ہیں۔

امریکن پاکستان واٹر سٹڈیز سینٹر کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق 1950 کی دہائی سے اب تک ڈیلٹا کی طرف دریائے سندھ کے پانی کے بہاؤ میں 80 فیصد کمی آ چکی ہے جس کی وجہ نہری نظام، پن بجلی کے ڈیم اور گلیشیئر و برف کے پگھلنے پر موسمیاتی تبدیلی ہے۔

اس سے سمندری پانی کی تباہ کن دراندازی ہوئی ہے۔ 1990 سے اب تک پانی میں نمکیات میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، جس سے فصل اگانا ناممکن اور جھینگے و کیکڑے کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مقامی ماہر تحفظ ماحول محمد علی انجم کے مطابق: ’ڈیلٹا نہ صرف سکڑ رہا ہے بلکہ سمندری پانی سے ڈوب بھی رہا ہے۔‘

دریائے سندھ تبت سے نکلتا ہے، متنازع کشمیر سے ہوتا ہوا پورے پاکستان سے گزرتا ہے۔

یہ دریا اور اس کے معاون دریا ملک کی 80 فیصد زرعی زمین کو سیراب کرتے ہیں، جو لاکھوں لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔

یہ ڈیلٹا کبھی زرخیز مٹی کے باعث زراعت، ماہی گیری، مینگرووز اور جنگلی حیات کے لیے موزوں ترین علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن 2019 کی ایک سرکاری تحقیق کے مطابق اب اس کا 16 فیصد زرخیز رقبہ سمندری پانی کے باعث ناقابل کاشت ہو چکا ہے۔

کیٹی بندر کے قصبوں کی زمین پر نمک کی سفید تہہ جمی ہوئی ہے۔ پینے کے قابل پانی کشتیاں میلوں دور سے لاتی ہیں اور لوگ گدھوں کے ذریعے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔

حاجی کرم، جن کا گھر پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث ڈوب گیا، کہتے ہیں: ’کون اپنی سرزمین خوشی سے چھوڑتا ہے۔ انسان صرف تب اپنا وطن چھوڑتا ہے جب کوئی اور راستہ باقی نہ بچے۔‘

انہوں نے سمندر سے دور نیا گھر بنایا ہے اور انہیں یقین ہے کہ اور لوگ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

متحد ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے انگریز حکمرانوں نے سب سے پہلے دریائے کا قدرتی بہاؤ نہروں اور ڈیموں کے ذریعے بدلا اور بعد میں حکومت پاکستان نے مزید درجنوں پن بجلی منصوبے بنائے گئے۔

رواں سال سندھ کے نشیبی دریائی علاقوں میں کسانوں کے مظاہروں کے بعد فوج کی نگرانی میں بننے والے کئی نہری منصوبے روک دیے گئے تھے۔

انڈس ریور بیسن کی بحالی کے لیے حکومت پاکستان اور اقوام متحدہ نے 2021 میں ’لیونگ انڈس انیشی ایٹو‘ شروع کیا جس کا ایک ہدف ڈیلٹا کی بحالی، زمین کی نمکیات کم کرنا، زراعت اور مقامی ماحولیاتی نظام کا تحفظ ہے۔

سندھ حکومت نے بھی مینگرووز کی بحالی کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے کیونکہ یہ درخت سمندری پانی کے خلاف قدرتی دیوار کا کام دیتے ہیں۔

لیکن ایک طرف کچھ علاقوں میں مینگرووز دوبارہ اگائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف زمین پر قبضہ اور رہائشی منصوبے انہیں کاٹ کر ختم کر رہے ہیں۔

دوسری طرف انڈیا نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے بعد 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے جو اس دریا کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

انڈیا نے کہا ہے کہ وہ یہ معاہدہ بحال نہیں کرے گا اور بالائی علاقوں میں ڈیم بنائے گا جس سے پاکستان کی طرف پانی کا بہاؤ محدود ہو جائے گا۔ پاکستان نے اس اقدام کو ’جنگی اقدام‘ قرار دیا ہے۔

ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کے مطابق یہاں صرف گھر ہی نہیں بلکہ ڈیلٹا سے جڑی زندگی کا پورا طرز ختم ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’خواتین، جو نسلوں سے جال بنتی تھیں اور مچھلی پیک کرتی تھیں، شہروں میں آ کر کام ڈھونڈنے میں پریشان ہیں۔‘

فاطمہ، جن کے دادا نے کھارو چھان سے ہجرت کر کے خاندان کو کراچی کے مضافات میں بسایا، کہتی ہیں: ’ہم نے صرف اپنی زمین نہیں کھوئی، ہم نے اپنی ثقافت بھی کھو دی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات