امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے فیصلے نے انڈین معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔
اضافی ٹیرف، جو پہلے سے موجود 25 فیصد شرح کے علاوہ ہے، انڈین برآمدات کے لیے ایک بڑا جھٹکا سمجھا جا رہا ہے۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے انڈیا کو ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے مقابلے میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔
انڈین ماہر معاشیات اے پرسنا نے اس فیصلے کو انڈین برآمدات کے لیے ایک ’بڑا منفی‘ قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اب مجموعی طور پر 50 فیصد کی شرح کے ساتھ، بہت سی انڈین برآمدات کو ان ممالک کے مقابلے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جن پر 15 سے 30 فیصد ٹیرف لاگو ہے۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ الیکٹرانکس اور فارماسیوٹیکل جیسے کچھ اہم شعبے اس اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں۔
بینکنگ معاشیات کی ماہر ساکشی گپتا نے خبردار کیا ہے کہ ’اگر آئندہ 21 دنوں میں کوئی تجارتی معاہدہ نہیں ہو پاتا تو 2026 کے لیے انڈیا کی جی ڈی پی میں 40 سے 50 بیسس پوائنٹس کی کمی ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس سے مجموعی ترقی کی شرح چھ فیصد سے نیچے آ جائے گی۔‘
ان کے مطابق یہ کمی ان کے پہلے کے تخمینوں سے دگنی ہے۔
ایکیوٹیز کی ماہر ٹریسا جان کے خیال میں اس فیصلے سے انڈیا پر تجارتی معاہدے تک پہنچنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو ممکنہ طور پر روسی تیل کی خریداری کو بتدریج کم کرنے اور دیگر ذرائع کی طرف رخ کرنے پر رضامند ہونا پڑ سکتا ہے۔
بینک اکانومسٹ گورا سین گپتا نے اس سلسلے میں کہا کہ ’اگر یہ ٹیرف مارچ 2026 تک برقرار رہتا ہے تو مالی سال 2025-26 کے لیے جی ڈی پی کے تخمینے میں 0.3 سے 0.4 فیصد تک کی کمی آ سکتی ہے۔‘
یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے انڈیا پر روس سے براہ راست یا بالواسطہ تیل درآمد کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں انڈیا کی تجارتی پوزیشن مزید کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔