پنجاب: سیلاب فش فارمز کی مچھلیاں بہا لے گیا، کروڑوں کا نقصان

کسان اتحاد کونسل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 40 ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل فش فارم تباہ ہوئے ہیں، جس سے نجی فش فارمرز کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

 پنجاب میں 90 ہزار ایکڑ پر فش فارمز قائم ہیں، جن میں سے زیادہ مظفر گڑھ، گجرانوالہ اور سرگودھا کے اضلاع میں واقع ہیں (محکمہ فشریز پنجاب)

چوہدری اعظم نے گھر کے زیورات بیچ کر اور رقم ادھار اٹھا کر شور کوٹ کے قریب چار مربع زمین پر چار بڑے تالابوں پر مشتمل فش فارم بنایا تھا، لیکن حالیہ سیلاب کا پانی دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں مچھلیاں بہا لے گیا، جس سے انہیں کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔

اپنے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری اعظم نے بتایا: ’محض چند گھنٹوں میں میری آنکھوں کے سامنے میری چھ کروڑ روپے کی مچھلیاں پانی کی نظر ہو گئیں۔‘

پاکستان میں جون میں شروع ہونے والی مون سون بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے خصوصاً صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پر فش فارمز متاثر ہوئے ہیں۔

محکمہ فشریز پنجاب کے ریکارڈ میں بتایا گیا کہ صوبے میں 90 ہزار ایکڑ پر فش فارمز قائم ہیں، جن میں سے زیادہ مظفر گڑھ، گجرانوالہ اور سرگودھا کے اضلاع میں واقع ہیں۔ 

حالیہ سیلاب کی وجہ سے ہزاروں ایکڑ پر بنے تالابوں میں موجود لاکھوں من مچھلیاں بے رحم ریلوں کی نذر ہو گئیں، جس سے چوہدری اعظم جیسے کئی فش مارمز کے مالکان راتوں راتوں کنگال ہو گئے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نقصان سے سردیوں میں مچھلی کی دستیابی بھی کافی کم ہونے کا امکان ہے، جب کہ قیمتوں میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ 

فش فارمز مالکان کے لیے بارشیں اور سیلاب عذاب سے کم ثابت نہیں ہوئے لیکن دوسری جانب دریائی ماہی گیروں کی چاندی ہو گئی۔ 

مظفر گڑھ کے ماہی گیر محمد فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں اور مجھ جیسے درجنوں مچھیرے دریائے چناب کے کنارے دریائی مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرتے ہیں۔ جب سے سیلاب آیا ہے ہم دن رات مچھلیاں پکڑنے کا کام کر رہے ہیں۔‘ 

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سیلاب میں بہہ جانے والی فش فارمز کی مچھلیاں دریا میں آ گئی ہیں، جنہیں ان جیسے مچھیرے پکڑ رہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ’پہلے میں دن میں زیادہ سے زیادہ 10 کلو مچھلی پکڑ لیتا تھا لیکن اب ایسا دن بھی تھا، جب ہم نے ایک ڈیڑھ من مچھلی پکڑ کر فروخت کی۔‘

تاہم محمد فاروق نے بتایا کہ دریاؤں میں مچھلی کی بہتات کی وجہ سے مارکیٹ میں ریٹ 300 روپے فی کلو سے کم ہو کر 150 روپے تک گر گیا ہے۔   

کس حد تک فش فارم متاثر ہوئے؟

فش فارمز ایسوسی ایشن کے مطابق دریائے چناب کے اطراف سب سے زیادہ فش فارمز ہیں۔ ستلج اور راوی کے قریبی علاقوں میں بھی مچھلیوں کے تالاب موجود ہیں۔ 

ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ دریائے راوی پر مائی صفورا بند توڑے جانے کے باعث عبدالحکیم، شور کورٹ، کوٹ اسلام کے اطراف ہزاروں ایکڑ پر مچھلی فارمز کو نقصان پہنچا۔  

کسان اتحاد کونسل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 40 ہزار ایکڑ رقبے پر فش فارم تباہ ہوئے ہیں، جس سے پرائیویٹ فش فارمرز کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔

محکمہ فشریز پنجاب کی ڈائریکٹر سدرہ عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’پنجاب کے تنیوں دریاؤں میں مچھلیاں پکڑنے کے پوائنٹس کا ٹھیکہ حکومت دیتی ہے، لیکن ان دریاؤں کے اطراف ہزاروں ایکڑ پر نجی فش فارمز بھی بنے ہوئے ہیں۔ 

’سیلابی پانی سے رواں سیزن کے لیے پالی جانے والی مچھلیاں پانی میں بہہ گئی ہیں۔ ہم نے تمام فش فارمرز کو کہا ہے کہ وہ اپنے نقصانات کی تفصیلات درج کروائیں۔‘  

چوہدی اعظم کے بقول: ’ہم 800 گرام کا بچہ لے کر تالاب میں چھوڑتے ہیں، پھر اسے خوراک بھی کھلاتے ہیں، لیکن بہت سے فارمز پر مچھلی تیار تھی جو سیلاب کا پانی بہا کر لے گیا۔

’ہمارے کاروبار فی الحال تو ٹھپ ہو گئے ہیں۔ گھر کے زیورات بیچ کر اور قرضہ اٹھا کر ہم نے تالاب میں مال ڈالا تھا کہ تیار ہونے پر منافع کمائیں گے۔‘ 

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دیگر شعبوں کی طرح فش فارمرز کے لیے بھی خصوصی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے۔

پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے ترجمان چوہدری مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’فش فارمز مالکان کے نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے جاری ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کی کس طرح سے مدد کی جائے گی، اس کا اندازہ بھی سروے مکمل ہونے پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔

’ابھی تک صرف فصلوں کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ صوبے بھر میں 22 لاکھ ایکڑ رقبہ زیر آب آیا ہے، جس میں فش فارمز بھی شامل ہیں ابھی تک فصلوں کی فی ایکڑ 20 ہزار روپے کی مدد کا اعلان کیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت