بیانیے کی جنگ!

حالیہ پاک انڈیا جنگ کے دوران ریاست کو ایک مرتبہ بھی عوام کو یہ بتانا نہیں پڑا کہ دشمن کون ہے، لیکن شدت پسندی کے خلاف جنگ میں بیانیہ ابہام کا شکار کیا گیا۔

پشاور میں یکم فروری، 2023 کو پولیس اہلکار سڑک کے کنارے پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

افراتفری کو کہاں امن سے مطلب۔ افراتفری تقسیم اور ابہام سے آگے کا مرحلہ ہے۔ معاشرے میں ابہام تقسیم کی وہ پہلی نقب ہے جو بیانیے کے ذریعے لگائی جاتی ہے۔ بیانیہ بھی وہ جو مقبول ہو یا نہ ہو لیکن جرأتِ سوال کو ختم کرے اور خوف کو مسلط کرے۔

خیبر پختونخوا مسلسل شدت پسندی کا شکار ہے۔ کوئی دن ہی ایسا ہو گا جب اس صوبے سے اموات کی خبر نہ آئے۔ عوام امن کے خواہاں مگر امن کے عملی اقدام پر تقسیم۔ شدت پسندی کے شکار عوام شدت پسندوں سے جنگ لڑنے کو تیار مگر ہاتھ ہتھیار اٹھانے سے مانع۔ قاتل دہلیز پر کھڑا حملے کر رہا ہے مگر لڑائی کے حوصلے کو مسمار کر کے مذاکرات کی ترغیب کا بیانیہ اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں ہے۔ اصل جنگ تو بیانیے کی ہے جسے بنانے کے لیے اگر مگر، چونکہ چنانچہ سے باہر نکل کر سوچنا ہے مگر عالم یہ ہے کہ بیانیے کی جنگ کے سب ہتھیار مخالف سمت میں ہیں۔

حال ہی میں پاک انڈیا جنگ کے دوران ریاست کو ایک مرتبہ بھی عوام کو یہ بتانا نہیں پڑا کہ دشمن کون ہے اور ہمیں لڑنا کیسے ہے۔ کیونکہ عوام متحد اور بیانیہ منقسم نہ تھا۔ لڑائی کی ہر صف کے پیچھے مستعد عوام حوصلہ بڑھاتے رہے۔ زندہ باد کے نعروں اور داد و تحسین کے ساتھ عوام منظم، متحد اور فخر مند رہی۔ یہ سب اس لازوال بیانیے کا اثر تھا جس نے ہجوم کو قوم بنایا۔

شدت پسندی کے خلاف جنگ میں بیانیہ ابہام کا شکار کیا گیا۔ یہ ادارہ جاتی ’اثاثے،‘ ’سیاسی اثاثے‘ بنے اور احساس تب ہوا جب نقب لگ چکی تھی۔

شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کئی ایک المیے رہے ہیں۔ ریاست ابہام کا شکار رہی اور اچھے، برے طالبان کی تفریق منقسم بیانیے کو جنم دیتی رہی۔ یہ بیانیہ سیاست اور صحافت کے ذریعے ترویج پاتا رہا۔۔۔  کبھی ’جہادی‘ تو کبھی فسادی کا ابہام ریاستی اداروں کی پالیسیوں کا محور رہا۔ دور کیوں جائیں فقط 2021 میں ’اچھے طالبان‘ سے مذاکرات کیے گئے اور صرف چند سال پہلے ’برے‘ قرار دیے جانے والوں کو ریاستی سر پرستی میں حکومت نے دوبارہ بسانے کا منصوبہ بنایا۔

کمزور یادداشتوں کے لیے عرض ہے کہ اسی دوران پارلیمنٹ میں ان مذاکرات سے متعلق ’بیانیہ‘ اس وقت کی عسکری قیادت نے سیاست دانوں کو بتایا اور سمجھایا، فقط چند کہ جن میں محسن داوڑ آج بھی آن ریکارڈ ہیں کہ کسی نے چوں چرا نہ کی۔ ستم ظریفی کہ اس وقت کے وزیراعظم اور ان کے وزیر فوج کے اس منصوبے کے نہ صرف دفاع میں جٹ گئے بلکہ اپنے ازلی سیاسی اور نظریاتی بیانیے کہ ’یہ ہماری جنگ نہیں ہے‘ کو زور و شور سے دہرانے لگے۔

عمران خان اپنی سیاست کے آغاز سے اب تک شدت پسندی کے خلاف جنگ میں صرف ’مذاکرات‘ کے بیانیے کے حامی رہے ہیں۔ اس بیانیے کی حمایت ادارے کے اندر پالیسی کی پذیرائی کے باعث عوامی رائے بنانے کے لیے تقویت پکڑتی رہی یہاں تک کہ ان کے دور حکومت میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب خود خان صاحب کے اعتراف کے مطابق 30 سے 40 ہزار لوگ واپس افغانستان سے لائے گئے جن میں چار سے پانچ ہزار جنگجو بھی شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حال ہی میں ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف سے یہ سوال پوچھا کہ اب کیسے مان لیں کہ شدت پسندوں کے خلاف پالیسی تبدیل نہ ہو گی جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اب ریاست ’ابہام‘ سے نکل آئی ہے۔ یہ خبر خوش نما ہے مگر پھر بھی دل ماضی کی پے در پے بدلتی پالیسیوں پر خدشات کا شکار ہے۔ بہر حال اب جب ریاست ابہام سے نکل آئی ہے تو کیا ان تمام کرداروں کو کٹہرے میں کھڑا کرے گی جن کی وجہ سے ہم ایک بار پھر شدت پسندی کا نشانہ ہیں اور یہ آگ گلی کوچوں میں ناچتی نظر آ رہی ہے۔

آرمی چیف کا حال ہی میں قبائلی عمائدین سے جرگہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ شدت پسندوں اور ان کے ’سہولت کاروں‘ کے خلاف کاروائی کا عندیہ بھی آنے والے دنوں میں بعض تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ صوبائی حکومت محاذ آرائی کے جس راستے پر ہے وہ وفاق اور صوبے کے تعلق کو ازسرنو ترتیب دے سکتا ہے۔ اسلام آباد کی خاموش فضاؤں میں ریاست کے مفادات کا تحفظ اولین فوقیت رکھتا ہے اور اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں پایا جاتا۔

اس جنگ کو جیتنے کے لیے شدت پسندی کے خلاف موثر بیانیے کی ضرورت ہے تاہم رائے بنانے والے صحافی اور ’دانشور‘ خوف کا شکار ہیں اسی لیے نوشتہ دیوار پڑھنے کے باوجود ’مقبول اور منہ زور سماجی فسطائیت‘ کے سامنے خاموش ہیں۔

ریاست کو پختونخوا عوام میں اعتماد بحال کرنا ہو گا کہ امن کے لیے ’گڈ اور بیڈ‘ کی تقسیم اب موجود نہیں۔ خیبر پختونخوا کے عوام کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ اب ریاست اپنی پالیسی نہیں بدلے گی۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف کاروائی ہو گی مذاکرات نہیں۔ دوسری جانب وہ  گروہ جو ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں انہیں بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی جماعتوں کو عوامی رابطوں اور قبائلی عوام سے تعلق استوار کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف پختون خواہ کی مقبول جماعت ہے اسے بھی اعتماد میں لینا ہو گا جبھی امن کا غیر مشروط بیانیہ کسی کے سیاسی مقاصد اور مفادات کی بھینٹ نہ چڑھ سکے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر