ترکی کی وزارت خارجہ نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان نے سیزفائر کو برقرار رکھنے اور ایک نگرانی اور تصدیق کا نظام بنانے پر اتفاق کیا ہے، جس کا حتمی فیصلہ چھ نومبر کو استنبول میں ایک اجلاس میں کیا جائے گا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر کے اوائل میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد کشیدگی میں کمی کے لیے قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا انعقاد ہوا۔
بات چیت کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا اور 19 اکتوبر کو دونوں ملکوں میں جنگ بندی کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
پاکستان نے 29 اکتوبر کو استنبول مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی، تاہم گذشتہ روز (30 اکتوبر) کو پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ میزبان حکومت کی درخواست پر اسلام آباد نے افغانستان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ترک وزارت خارجہ نے ترکی اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے ان مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ فریقین نے جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
ترک وزارت خارجہ کے مطابق: ’افغانستان، پاکستان، ترکی اور قطر نے 25 تا 30 اکتوبر 2025 کو استنبول میں اجلاس منعقد کیے جن کا مقصد جنگ بندی کے اس معاہدے کو مضبوط بنانا تھا جو 18 تا 19 اکتوبر 2025 کو دوحہ میں ترکی اور قطر کی ثالثی کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پایا تھا۔‘
تاہم دونوں ممالک کے بیس روز سے بند سرحد تجارت اور آمدو رفت کے لیے دوبارہ کھولنے کا نئے معاہدے میں کوئی ذکر نہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’تمام فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے۔‘
مزیدکہا گیا کہ معاہدے پر ’عمل درآمد کی مزید تفصیلات پر بات چیت اور حتمی فیصلہ 6 نومبر 2025 کو استنبول میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔‘
ترک وزارت خارجہ کے مطابق فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ’ایک نگرانی اور تصدیقی نظام وضع کیا جائے گا جو امن کے تسلسل کو یقینی بنائے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائد کرے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ثالث کی حیثیت سے ترکی اور قطر، دونوں فریقوں کی فعال شمولیت پر اظہارِ تشکر کرتے ہیں اور پائیدار امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔‘
پاکستانی حکومت یا کسی عہدیدار کی جانب سے اس حوالے سے ابھی کوئی باقاعدہ بیان سامنے نہیں آیا، تاہم وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایکس پر ترک وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے کو ری پوسٹ کیا ہے۔
خواجہ آصف اس سے قبل خبردار کر چکے تھے کہ اگر افغانستان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو یہ ’کھلی جنگ‘ کے مترادف ہو گا۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے، تاہم طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔
دوسری جانب افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں استنبول مذاکرات کو ’ایک پیچیدہ عمل‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ مذاکرات ’اس اتفاقِ رائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے کہ دونوں فریق دوبارہ ملاقات کریں گے اور باقی ماندہ امور پر گفتگو کریں گے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے ترکی اور قطر کی ثالثی اور سہولت کاری کو سراہتے ہوئے مزید کہا: ’ابتدا سے ہی امارتِ اسلامی افغانستان سفارت کاری اور تفاہم پر یقین رکھتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے ایک جامع اور پیشہ ور ٹیم مقرر کر کے خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کیا اور اس مرحلے تک مکمل تعاون اور صبر و تحمل کے ساتھ اسے جاری رکھا۔‘
مزید کہا گیا: ’جس طرح امارتِ اسلامی دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہاں ہے، اسی طرح وہ پاکستان کے ساتھ بھی مثبت تعلقات چاہتی ہے اور باہمی احترام، داخلی امور میں عدم مداخلت اور کسی بھی جانب کے لیے خطرہ نہ بننے کے اصولوں پر مبنی تعلقات کے قیام کے لیے پرعزم ہے۔‘
 
             
               
   
           
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
	             
	             
	             
	             
	             
	             
                     
                     
                     
                    