پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی نے جمعرات کو ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ میزبان حکومت کی درخواست پر اسلام آباد نے افغانستان سے استنبول میں دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد جو واپسی کے لیے تیار تھا، اب استنبول میں مزید قیام کرے گا تاکہ بات چیت کا عمل آگے بڑھایا جا سکے۔
پاکستان نے بدھ کو استنبول میں افغان طالبان حکومت کے ساتھ چار روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی۔
دونوں ملکوں کے درمیان اسی مہینے ہونے والی سرحدی جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا انعقاد ہوا۔
بات چیت کا پہلا دور دوحہ میں منعقد ہوا اور 19 اکتوبر کو جنگ بندی کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے مزید کہا: ’یہ فیصلہ کیا گیا کہ امن کو ایک اور موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کیا جائے۔‘
ذرائع کے مطابق: ’بات چیت کا مرکز پاکستان کا مرکزی اور دیرینہ مطالبہ ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے اور دہشت گرد عناصر کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کرے۔‘
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اور طالبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے۔ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔
مذاکرات کے دوسرے دور کی ناکامی کے بعد پاکستانی حکام نے افغان حکومت کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کیا۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا تھا کہ ’امن کو ایک موقع دینے کی کوشش‘ میں قطر اور ترکی جیسے برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کیے، تاہم ’کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا۔ نتیجتاً یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔‘
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے الزام عائد کیا کہ افغان حکومت انڈیا کی پراکسی بنے ہوئے ہیں۔
العربیہ ٹی وی کو انٹرویو میں خواجہ آصف نے کہا: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (افغانستان میں طالبان حکومت) انڈین پراکسی بن چکے ہیں اور انڈیا درحقیقت افغان سرزمین سے ہمارے (پاکستان کے) خلاف کم شدت کی جنگ چھیڑ رہا ہے۔‘
استنبول مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بیان کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’سب کچھ ایک نکتے پر ٹکا ہوا تھا کہ افغان حکومت یا ٹی ٹی اے (تحریک طالبان افغانستان) کی سرپرستی میں پاکستان کی سرزمین میں کوئی دراندازی نہیں ہو گی کیونکہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) افغان سرزمین سے پاکستان میں کام کر رہی ہے یا افغان سرزمین سے سپانسر ہو رہی ہے۔‘
پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ’یہ ان مذاکرات کے خاتمے کی بنیادی وجہ تھی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ وہ ان کو کنٹرول کریں یا لگام دیں تاکہ وہ ہمارے علاقے میں داخل نہ ہوں۔ ہم کابل حکومت سے مضبوط ضمانت چاہتے تھے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے رواں برس مئی میں انڈیا کے ساتھ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’(انڈیا) آخری راؤنڈ میں اس سکور کو طے کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو تقریباً پانچ ماہ قبل ہم نے کیا تھا، جب انہیں سخت شکست ہوئی اور وہ طیارے کھو بیٹھے۔‘
دوسری جانب افغان طالبان حکومت کے نمائندے سہیل شاہین نے بدھ کی شب میڈیا کے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان کے بیانات حقائق کی عکاسی نہیں کرتے۔ ہم ایسا حل چاہتے ہیں جہاں دونوں طرف کے خدشات دور ہوں نہ کہ ایک طرف۔‘