ترکی کے شہر استنبول میں جاری پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا پیر کو تیسرا دور بھی مشکلات کا شکار رہا کیونکہ تاحال اس میں کسی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا گیا۔
اسلام آباد میں وفاقی وزارت دفاع کے حکام کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا وفد پاکستان کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کو پوری طرح سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان استنبول میں ہفتے کو شروع ہونے والے مذاکرات کا مقصد طویل مدتی امن قائم کرنا ہے۔
نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی تھی۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے ان دھماکوں کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور 11 اکتوبر کو جوابی سرحدی کارروائیاں شروع کیں، جن کا پاکستان نے جواب دیا۔
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے کئی دنوں کی شدید جھڑپوں میں دونوں طرف سے درجنوں اموات ہوئیں اور انفراسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت میں واپسی کے بعد سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوئے، اسلام آباد کابل پر سرحد پار دہشت گردانہ حملے کرنے والے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ افغانستان اس کی تردید کرتا ہے۔
پڑوسیوں ممالک کے درمیان ابتدائی طور 48 گھنٹے کی جنگ بندی کے بعد، 19 اکتوبر کو قطر اور ترکی کی ثالثی میں دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے بعد غیر واضح شرائط کے ساتھ جنگ بندی کا آغاز ہوا تھا۔
وزارت دفاع کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذاکرات کے ثالث بھی پاکستانی مطالبات کر ’منطقی، معقول اور جائز‘ تسلیم کرتے ہیں۔
’لیکن افغان طالبان کا وفد ان مطالبات کو ماننے پر پوری طرح آمادہ نہیں۔‘
تاہم مذاکرات میں شامل ایک طالبان مندوب نے برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز سے گفتگو میں اس تجویز کو ’جھوٹ‘ قرار دیا کہ وہ مذاکرات میں خلل پیدا کر رہے اور کہا کہ بات چیت ابھی جاری ہے۔
افغان طالبان کے مندوب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’مجموعی طور پر میٹنگ اچھی جا رہی ہے اور ہم نے دوستانہ ماحول میں متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔‘
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے، ہم نتائج کی پیش گوئی نہیں کر سکتے اور ہمیں میٹنگ کے اختتام کا انتظار کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ مسئلے کو حل کرنے کا واحد حل بات چیت اور افہام و تفہیم ہے۔
پاکستانی وزارت دفاع کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتوار کو بتایا کہ ’مذاکرات میں مزید پیش رفت کا انحصار افغان طالبان کے مثبت رویے پر ہے۔‘ اور طالبان کے مذاکرات کاروں پر ’ضد اور سنجیدگی کی کمی‘ کا الزام لگایا۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کے روز خبردار کیا تھا کہ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی ’کھلی جنگ‘ کا باعث بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس آپشن ہے، اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔
پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف ’تصدیق شدہ کارروائی‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
کابل عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کی تردید کرتا ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی پر دستخط کرتے ہوئے ملائیشیا میں سربراہی اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور افغانستان ثالثی میں مدد کی اپنی پیشکش کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ ’افغانستان پاکستان بحران کو بہت جلد حل کر سکتے ہیں۔‘
دونوں پڑوسیوں کے درمیان سرحد دو ہفتوں سے بند ہے، صرف پاکستان سے بے دخل کیے گئے افغان باشندوں کو ہی سرحد عبور کرنے کی اجازت ہے۔
25 سالہ ڈرائیور گل نے اے ایف پی کو بتایا کہ سرحد پر افغانستان کی جانب سپن بولدک کے قصبے میں ’50 سے 60 ٹرک ہیں، جن میں سے کچھ میں سیب، کچھ میں انار اور انگور ہیں۔ پھل سڑ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم انتظار کرتے ہیں اور حکومت سے سرحد کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) کی جانب سے پیر کو اے ایف پی کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، تشدد میں ایک ہفتے کے دوران کم از کم 50 افغان شہریوں جان سے گئے اور 447 دیگر زخمی ہوئے۔
استنبول مذاکرات تعطل کا شکار؟
افغان امور کے سینیئر صحافی طاہر خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ پہلے دو دن کی ملاقاتوں کے باوجود کسی بھی فریق نے ریکارڈ پر بات نہیں کی ہے۔ ’صورت حال بالکل واضح نہیں ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ اگر دو دن میں ہونے والی طویل ملاقاتوں میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے تو یہ ممکن ہے کہ کچھ معاملات پیچیدہ ہوں۔‘
دونوں ممالک کی وزرات خارجہ نے بات چیت کے بارے میں آغاز کے بعد سے کوئی باضابطہ اپ ڈیٹ شیئر نہیں کی ہے، تاہم طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا، ’مذاکرات کا دوسرا مرحلہ جاری ہے۔ ہم نتیجے کی پیش گوئی نہیں کر سکتے اور مذاکرات کے اختتام تک انتظار کرنا ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان کے ساتھ حالیہ مسئلے کا واحد حل بات چیت اور افہام و تفہیم ہے۔‘
ان مذاکرات کے اب تک کے نتائج کے حوالے سے کسی بھی فریق نے کوئی باضابطہ تفصیلات نہیں بتائیں۔ دونوں ممالک میڈیا کے ساتھ ’ذرائع‘ کے حوالے سے بیانات شیئر کر رہے ہیں۔