افغانستان میں مذہبی سیاست کا مرکز اب پاکستان نہیں رہا

کبھی افغانستان میں مذہب کی سیاست کا سرچشمہ اسلام آباد تھا مگر اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔ افغان طالبان اپنے قومی مفاد کے مطابق خود تعبیرِ مذہب طے کر رہے ہیں اور شاید اب فتویٰ کا جغرافیہ اسلام آباد سے دہلی تک پھیلنے والا ہے۔

27 جنوری 2023 کو مزار شریف میں نماز جمعہ کے دوران ایک طالب نے طالبان کا جھنڈا پکڑا ہوا (اے ایف پی)

کبھی افغانستان میں مذہب کی سیاست کا سرچشمہ سرحد کے اس پار ہوا کرتا تھا۔ اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر راولپنڈی کے فیصلہ ساز کمروں تک مذہب ایک ایسا ہتھیار سمجھا جاتا تھا جس سے کابل کے تخت کو ہلایا جا سکتا تھا۔

سردار داؤد خان سے لے کر اشرف غنی کی جمہوری حکومت تک، پاکستان نے افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے ہمیشہ ایک ہی حربہ آزمایا یعنی مذہبی کارڈ۔

1970 کی دہائی میں جب سردار داؤد خان نے ظاہر شاہ کو ہٹا کر جمہوریہ افغانستان قائم کی تو ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات معمول کے مطابق رہے۔

مگر جب داؤد خان نے ’پشتونستان کے مطالبے‘ کو دوبارہ زندہ کیا تو پاکستان نے اس کے خلاف ایک نظریاتی محاذ کھول دیا۔

کابل یونیورسٹی کے ان طلبہ کو منظم کیا گیا جن کے رجحانات مذہبی تھے اور یہی طلبہ بعد میں ’اسلامی تحریک افغانستان‘ کے نام سے پہچانے گئے۔

پاکستان نے اس وقت کے کابل کو ’اسلام مخالف‘ قرار دینے کا بیانیہ پھیلایا اور یوں مذہب افغان سیاست کا سب سے طاقتور سیاسی ہتھیار بن گیا۔

1979 میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان نے امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر افغان مزاحمت کو منظم کیا، مجاہدین کو اسلحہ، تربیت اور مالی مدد فراہم کی گئی۔

پشاور اور کوئٹہ کے قریب تربیتی کیمپ قائم کیے گئے جہاں ہزاروں نوجوانوں کو گوریلا جنگ کی تربیت دی گئی اور مدارس میں نظریہ جہاد کو پروان چڑھایا گیا۔

فتویٰ اب محض مذہبی نہیں رہا بلکہ سیاست کا آلہ بن چکا تھا اور اس بیانیے نے پورے خطے کی فکری سمت بدل دی۔

پاکستان کو اس دور میں ایک اور برتری حاصل تھی کیوں کہ افغانستان کے ہزاروں طلبہ دینی تعلیم کے لیے پاکستان آتے تھے۔

یہاں کے مدارس، جن پر اکثر ریاستی اثر نمایاں تھا، افغانستان سے متعلق وہی زاویہ فکر پروان چڑھاتے جو اسلام آباد کا ہوا کرتا۔

بعض مدارس سے ایسے فتوے بھی جاری ہوتے جو ریاستی پالیسی کے عین مطابق ہوتے، یوں دینی بیانیہ رفتہ رفتہ پاکستان کے سیاسی مفادات کا ترجمان بن گیا۔

مگر اب منظرنامہ تیزی سے بدل رہا ہے۔

افغانستان میں نہ صرف ہزاروں نئے مدارس قائم ہو چکے ہیں بلکہ ان کا تعلیمی معیار بھی پاکستانی مدارس سے بہتر ہے۔

افغان طلبہ اب پاکستان آنے کے بجائے اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس سے بڑھ کر ایک نئی فکری تبدیلی بھی ابھر رہی ہے جس کے اشارے افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ انڈیا میں ملے۔

اب ممکن ہے کہ افغان طلبہ دینی علوم کے حصول کے لیے انڈیا کا رخ کریں، جہاں دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، لکھنؤ اور مظاہرالعلوم سہارنپور جیسے ادارے انہیں ایک مختلف فکری زاویہ فراہم کریں گے۔

شاید یہ وہ لمحہ ہے جب نہ صرف فتویٰ بلکہ دینی تعبیر کا جغرافیہ بھی بدلنے کو ہے یعنی اسلام آباد سے کابل اور پھر شاید کابل سے دہلی تک۔

طالبان، جو کبھی پاکستان کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے تھے، اب اپنی خودمختار پالیسیوں پر گامزن ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اسلام آباد کے منصوبوں کو بخوبی سمجھ لیا ہے اور اب اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ کہیں وہی مذہبی بیانیہ جو کبھی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھا، اب اُن کے خلاف نہ اٹھ کھڑا ہو۔

اس وقت پاکستان شدید داخلی سلامتی بحران سے دوچار ہے۔

دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔

اسلام آباد کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگجو افغانستان میں موجود ہیں، جب کہ کابل کی حکومت اس الزام سے انکار کرتی ہے۔

ٹی ٹی پی کے اکثر رہنما پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جو کبھی افغان جہاد کے لیے سرگرم تھے اور یہی لوگ پاکستانی مدارس سے فارغ التحصیل ہیں۔

مگر اب وہ انہی مدارس کے اُن فتووں کو تسلیم نہیں کرتے جن میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کو حرام قرار دیا گیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی قیادت افغان طالبان کے امیر کو اپنا ’امیرالمومنین‘ مانتی ہے۔

اگرچہ افغان طالبان کے امیر نے اب تک پاکستان کے خلاف کوئی ایسا فتویٰ جاری نہیں کیا جس میں ریاست کے خلاف جہاد کی بات ہو، مگر سوال یہ ہے کہ اگر کل کو کابل، قندہار یا پکتیا سے ایسا کوئی فتویٰ سامنے آیا، ویسا ہی جیسا کبھی پاکستانی مدارس سے افغانستان کے خلاف آیا کرتا تھا، تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟

جو کارڈ کبھی پاکستان نے کھیلا تھا، اب وہ طالبان کے ہاتھ میں ہے اور اس کا رخ بدل چکا ہے۔

افغانستان کی تاریخ ایک بار پھر اپنے ہی دائرے میں لوٹ آئی ہے۔

جو قوت کبھی اسلام آباد کے قابو میں تھی، آج وہی کابل کی گلیوں سے اپنی تعبیر مذہب جاری کر رہی ہے۔

فتویٰ کا مرجع بدل چکا ہے اور اس تبدیلی نے پورے خطے کے سیاسی اور فکری توازن کو نئی صورت دے دی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے،  انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ