پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آج ترکی کے شہر استنبول میں ہونے جا رہا ہے۔ ان مذاکرات سے خطے میں امن کے نئے دور کی امید کی جا رہی ہے۔
ترکی میں ہونے والے مذاکرات قطر کے دارالحکومت دوحہ میں رواں ماہ 19 اکتوبر کو طے پانے والے پاکستان افغانستان معاہدے کے سلسلے کی کی دوسری کڑی ہیں، جن میں سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ’نگرانی کے نظام کے قیام‘ پر توجہ دی جائے گی۔
پاکستان کے وزارت خارجہ نے جہاں اس معاہدے کو ’خطے میں پائیدار امن و سلامتی کی جانب پہلا مثبت قدم‘ قرار دیا ہے، وہیں اس عمل میں برادر ممالک قطر اور ترکی کے کردار کو بھی سراہا ہے۔
اس ضمن میں گذشتہ روز پاکستان کی وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ ’اس ملاقات میں ایک ایسا نظام بنایا جائے گا جس سے افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے دہشت گرد حملے روکے جا سکیں اور پاکستانیوں کی جانیں محفوظ رہیں۔‘
افغانستان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’امارت اسلامی کے نائب وزیر داخلہ حاجی نجیب کی سربراہی میں افغانستان سے وفد چند روز قبل دوحہ میں ہونے والے معاہدے کے سلسلے میں ترکی روانہ ہو گیا ہے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ترکی میں ہونے والے مذاکرات میں باقی رہ جانے والے معاملات پر بات کی جائے گی۔
استنبول میں ہونے والے ان مذاکرات میں پاکستان کی نمائندگی کون کرے گا؟ اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تفصیلات نہیں بتائیں، تاہم وفد کی مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔
حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہوئیں، جن میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا۔ تاہم یہ جھڑپیں 19 اکتوبر کو قطر میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ختم ہو گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ بندی طے پائی تھی جو اس تاحال برقرار ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی جبک افغان وفد کی سربراہی وزیر دفاع ملا یعقوب کر رہے تھے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دورے کا ایجنڈا کیا ہوگا؟ پاکستان کی ان مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟ اور کیا پہلے دور کے اہداف مکمل طور پر حاصل ہوئے؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے وزارت خارجہ کے ترجمان دفتر خارجہ ناصر اندرابی سے گفتگو کی، جنہوں نے بتایا کہ دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی طے ہوئی تھی، جو اب تک بڑی حد تک قائم ہے اور یہ ایک مثبت قدم ہے۔
ناصر اندرابی کے مطابق: ’پاکستان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں بھی اسی خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ حصہ لے رہا ہے، جیسے اس نے دوحہ مذاکرات میں لیا تھا۔‘
مذاکرات کے پہلے دور کے اہداف سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا: ’دوحہ مذاکرات کے بعد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کسی بڑے دہشت گرد حملے کی اطلاع نہیں ملی۔ اگر دوحہ سے پہلے اور بعد کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جنگ بندی زیادہ تر قائم رہی ہے۔‘