افغان طالبان کی ’بہانے بازی‘، استنبول مذاکرات قابلِ عمل حل تک نہ پہنچ سکے: عطا تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بدھ کو بتایا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں چار روز سے جاری پاکستان افغانستان مذاکرات افغان طالبان کی ’الزام تراشی‘ اور ’بہانے بازی‘ کے باعث کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔

ایک مسلح طالبان سکیورٹی اہلکار 12 اکتوبر 2025 کو صوبہ قندھار کے ضلع سپن بولدک میں پاکستان سے متصل زیرو پوائنٹ سرحدی گزرگاہ کے بند دروازے کے قریب پہرہ دے رہا ہے(اے ایف پی)

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بدھ کو بتایا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں چار روز سے جاری پاکستان افغانستان مذاکرات افغان طالبان کی ’الزام تراشی‘ اور ’بہانے بازی‘ کے باعث کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔

نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی سرحدوں پر حملے کیے تھے، جن کا پاکستان نے مؤثر جواب دیا تھا۔ اس کے بعد متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہو گئے، دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

15 اکتوبر کی شام دونوں ملکوں کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں 17 اکتوبر کی شام مزید 48 گھنٹے تک توسیع کر دی گئی تھی جس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے وفود نے 18 اکتوبر کو دوحہ میں مذاکرات کیے، جن میں قطر اور ترکی نے ثالثی کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

19 اکتوبر کو سیز فائر معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا‘ اور دونوں ملک ’ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام‘ کریں گے۔

دوحہ مذاکرات کے بعد طے پانے والا سیز فائر برقرار ہے، جس کے بعد 25 اکتوبر کو بات چیت کا دوسرا دور ترکی کے شہر استنبول میں ہوا، جو چار روز تک جاری رہا۔

29 اکتوبر کو وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اپنے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’کابل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان بارہا افغان طالبان حکومت سے انڈین سرپرستی یافتہ فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور انڈین پراکسی، فتنہ الہندستان (بی ایل اے) کی سرحد پار دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے حوالے سے مذاکرات کرتا رہا ہے۔

’افغان طالبان حکومت سے متعدد مواقع پر دوحہ معاہدے میں پاکستان اور بین الاقوامی برادری کے لیے ان کی تحریری ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی درخواست کی گئی، تاہم افغان طالبان حکومت کی غیرمتزلزل حمایت کی وجہ سے پاکستان کی مسلسل کوششیں بے نتیجہ رہیں۔‘

پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں انڈین سرپرستی شامل ہے، تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے افغان طالبان پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو اس کے اندرونی مسائل سے جوڑتے ہیں اور اسلام آباد کو ان پر توجہ دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔

پاکستانی وزیر اطلاعات نے مزید کہا: ’امن کو ایک موقع دینے کی کوشش میں، قطر اور ترکی جیسے برادر ممالک کی درخواست پر پاکستان نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ پہلے دوحہ، قطر اور پھر استنبول، ترکی میں ایک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت کی، جس کا مقصد یہ مطالبہ کرنا تھا کہ طالبان حکومت دہشت گرد تنظیموں اور ان کے دہشت گردوں کو افغان زمین کو تربیتی و لوجسٹک بنیاد اور پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے نقط آغاز کے طور پر استعمال نہ کرنے دے۔‘

استبول میں 25 اکتوبر کو شروع ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا: ’گذشتہ چار روزہ مذاکرات کے دوران افغان طالبان وفد نے بار بار پاکستان کے معقول اور جائز مطالبے پر ان تنظیموں اور دہشت گردوں کے خلاف قابلِ اعتبار اور فیصلہ کن کارروائی کے مطالبے سے اتفاق کیا۔

’پاکستان نے کافی اور ناقابلِ تردید شواہد فراہم کیے، جو افغان طالبان اور میزبانوں نے تسلیم کیے، تاہم افسوس کہ افغانستان نے کوئی یقین دہانی فراہم نہیں کی۔ افغان حکام بار بار گفتگو کے بنیادی مسئلے سے ہٹتے رہے اور اس اہم نکتے سے گریز کرتے رہے، جس پر یہ مکالماتی عمل شروع کیا گیا تھا۔

’کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے افغان طالبان نے الزام تراشی، توجہ ہٹانے اور بہانے بازی کا سہارا لیا۔ نتیجتاً یہ مذاکرات کسی قابلِ عمل حل تک نہیں پہنچ سکے۔‘

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ہفتے کو خبردار کیا تھا کہ معاہدے تک پہنچنے میں ناکامی ’کھلی جنگ‘ کا باعث بن سکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمارے پاس آپشن ہے، اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو ہماری ان کے ساتھ کھلی جنگ ہے۔‘

عطا تارڑ نے مذاکرات میں سہولت کاری فراہم کرنے پر قطر، ترکی اور دیگر دوست ممالک کی کوششوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے عوام کی سلامتی پاکستان کے لیے بالخصوص اہم ہے۔‘

وزیر اطلاعات کے مطابق: ’ہم اپنے عوام کو دہشت گردی کے عفریت سے بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات جاری رکھیں گے اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ حکومت پاکستان دہشت گردوں، ان کی پناہ گاہوں، ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے درکار تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان