افغانستان سے مذاکرات کا دوسرا دور اہم، تفصیلات طے ہوں گی: سابق سفیر جوہر سلیم

سابق سفیر جوہر سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذکرات دوحہ میں ہونے والی بات چیت کا تسلسل ہیں، جس میں معاہدے کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔

سابق پاکستانی سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز (آئی آر ایس) کے صدر جوہر سلیم نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے دور کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس دوران معاہدے کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 19 اکتوبر کو دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والا سیز فائر برقرار ہے اور اب بات چیت کا دوسرا دور آج ترکی کے دارالحکومت استنبول میں ہو رہا ہے۔

مذاکرات کے پہلے دور میں دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی تھی، جس کے بعد سیز فائر معاہدے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا‘ اور دونوں ملک ’ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام‘ کریں گے۔

2021 میں افغان طالبان کی افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان عسکریت پسندی کی ایک نئی لہر سے نمٹ رہا ہے کیوں کہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

اسلام آباد کابل سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، تاہم افغانستان کی حکومت ایسی پناہ گاہوں کی موجودگی اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کی تردید کرتی ہے۔

توقع ہے کہ ترکی میں سیزفائر معاہدے کے لیے مانیٹرنگ میکانزم کے قیام پر بات ہوگی۔

سابق سفیر جوہر سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ استنبول میں مذکرات دوحہ میں ہونے والی بات چیت کا تسلسل ہیں، جس میں آگے بڑھنے کی جزیات طے کرنا شامل ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ پہلے دور کا اہم مقصد سیز فائر تھا، جو حاصل کر لیا گیا۔ ’دیکھیں پہلے راؤنڈ نے اپنا مقصد پورا کیا ہے سب سے عام چیز کیا تھی کہ سیز فائر ہو ۔۔۔ لیکن جو یہ (استنبول) راؤنڈ ہے، یہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے کیونکہ جو تفصیلات ہیں اس میں طے ہونی ہیں۔‘

نو اکتوبر کو کابل میں دھماکوں کے بعد افغان طالبان نے پاکستانی سرحدوں پر حملے کیے، جن کا پاکستان نے مؤثر جواب دیا تھا اور اس کے بعد متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔

15 اکتوبر کی شام دونوں ملکوں کے درمیان 48 گھنٹے کے سیزفائر کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں 17 اکتوبر کی شام مزید 48 گھنٹے تک توسیع کر دی گئی تھی جس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی سربراہی میں اعلیٰ سطح کے وفود نے 18 اکتوبر کو دوحہ میں مذاکرات کیے، جن میں قطر اور ترکی نے ثالثی کے فرائض سرانجام دیے تھے۔

جوہر سلیم نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کو کبھی اپنا ’بیک یارڈ‘ نہیں سمجھا۔ ’ہم نے ان کو اپنا ایک دوست سمجھا، بھائی سمجھا اور اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تعلقات ہیں۔

’ہم کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ہم افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کریں۔‘

مذاکرات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر تو برقرار ہے لیکن تجارتی راستے بدستور بند ہیں اور سرحد پر سینکڑوں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ طورخم، چمن، خرلاچی اور انگور اڈہ پر سینکڑوں مال بردار گاڑیاں پھنس گئی ہیں، جن میں سے بعض گاڑیوں پر ایسی اشیا بھی لدی ہوئی ہیں، جو خراب ہو رہی ہیں۔

پشاور میں پاکستانی کسٹم کے ایک سینیئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ طورخم میں سیمنٹ، ادویات، چاول اور دیگر بنیادی سامان لے جانے والے 1,500 سے زائد ٹرک، ٹریلرز اور کنٹینرز انتظار کر رہے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے معروف تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبان کا اس بات میں کوئی مفاد نہیں کہ وہ ایک بھرپور تصادم میں پڑیں جو انہیں ایک برتر عسکری قوت کے خلاف کھڑا کرے۔‘

انہوں نے  بتایا: ’یہ انہیں طویل جنگ بندی پر رضامند ہونے کا مضبوط محرک دیتا ہے،‘ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ کشیدگی کے بڑھنے کے امکانات ’اب بھی زیادہ ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا