افغانستان سے مذاکرات: دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

وقت آ گیا ہے کہ سکیورٹی ادارے، قبائل، مقامی سیاست دان، صوبائی حکومت اور وفاق سب مل کر دیرپا افغان پالیسی تشکیل دیں۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے افغان ہم منصب ملا محمد یعقوب سے 19 اکتوبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام پر مصافحہ کر رہے ہیں (قطری وزارت خارجہ ایکس اکاؤنٹ)

ہم پاکستان کے شہری علاقے کے لوگوں سے طالبان کا تعارف پرویز مشرف کے دور میں ہوا۔ شدت پسند ہمارے گلی کوچوں میں پہلے بھی مختلف ناموں سے موجود تھے مگر ان کا مقصد فرقہ واریت ہوا کرتا تھا۔

امریکہ میں نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملے کے بعد ہم نے نیویارک اور کابل سے ہزاروں میل دور کراچی میں بیٹھ کر القاعدہ اور طالبان کے قدموں کی آہٹ سنی۔ ان کے خودکش بمباروں کو پھٹتے دیکھا اور ملکی و غیر ملکی حملہ آوروں کو معصوم شہریوں پہ گولیاں برساتے دیکھا۔

کتنے ہی مذاکرات، جرگوں، معاہدوں اور فوجی آپریشنز کا ثمر یہ ملا کہ پاکستان کے اکثر شہری علاقوں کو امن نصیب ہو گیا لیکن صوبہ خیبر پختونخوا کے لوگوں کا امتحان ابھی تک جاری ہے۔

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں شدت پسندی اب بھی جاری ہے۔ پچھلے برس جان سے جانے والے سکیورٹی فورسز اور پولیس کے اہلکاروں اور عام شہریوں کی کل تعداد لگ بھگ چھ سو کے قریب تھی۔

معاملات کے بگڑنے کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس سال صرف پاکستانی فوج کے چار سو کے قریب اہلکار اور افسران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ مارے جانے والے پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کی تعداد لگ بھگ تین سو ہو گئی ہے۔

اس وقت اگر ایک عام پاکستانی کی ٹینشن مہنگائی، نوکری کی تلاش، غیر موثر انتظامیہ، سیاسی گھٹن یا اظہار رائے پہ پابندی ہے تو خیبر پختونخوا کے شہریوں کو فوجی آپریشنز، نقل مکانی، تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کا ڈر کھائے جا رہا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زمینی صورت حال یہ ہے کہ شدت پسند اب تھرمل کیمروں اور ڈرونز سمیت کواڈ کاپٹرز استعمال کر رہے ہیں جبکہ پورے صوبے کی پولیس آپریشنل وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت آپس میں اس بات پہ الجھی رہتی ہیں کہ اس ہفتے اڈیالہ کے قیدی سے ملاقات کروائی جائے گی یا نہیں۔

پہلے جرگے بیٹھتے تھے تو سیاسی رہنما، صوبائی حکومت، قبائلی عمائد اور سکیورٹی حلقے سب مل کر جنگ بندی پہ غور کرتے تھے۔ فوجی آپریشن ہوتا تھا تب بھی سب سٹیک ہولڈرز تمام تر اختلافات کے باوجود یک زبان ہوتے تھے۔ اب کی بار یہ حال ہے کہ شدت پسند حملہ کریں تو سکیورٹی فورسز کی کارکردگی پہ سوال اٹھتا ہے اور اگر فوج آپریشن کرے تو سیاسی اور مقامی سپورٹ ندارد۔

آج سے کوئی 15 برس قبل جب تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ پنجابی طالبان بھی زمانہ عروج پر تھے، تب بھی گرینڈ آپریشن یا مذاکرات کی کشمکش عرصے تک چلتی رہی۔ کچھ پنجابی طالبان گروہوں کو اندر سے توڑا گیا اور بعض کو خاموش مذاکرات کے ذریعے ٹھنڈا کیا گیا۔

پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذکرات بھی نئے نہیں۔ 2004 میں شکئی امن معاہدہ ہوا، اگلے برس جنوبی وزیرستان سراروغہ میں ایک اور معاہدہ ہوا۔ 2009 میں سوات امن معاہدہ کیا گیا، اس کے بعد 2014، 2021 اور 2022 میں بھی مختصر مدت کے امن معاہدے ہوئے۔ یہ تمام معاہدے جنگ بندی کے لیے تھے، جس کے عارضی فائدے بھی ملے۔

آج ایک بار پھر طالبان سے مذاکرات اور فوجی آپریشن کی دو راہیں کھلی ہیں اور پاکستان دونوں آپشنز اپنا رہا ہے کہ جس سے کام چل جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے تمام مذاکرات اور امن معاہدے آج تک تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے قائل نہیں کر سکے۔

دیگر عام پاکستانیوں کی طرح میں بھی طالبان اور سکیورٹی پالیسی کی ماہر نہیں لیکن سیاست دانوں کی لمبی لمبی پریس کانفرنسز، سکیورٹی افسران کی لائیو بریفنگ اور طالبان کی سوشل میڈیا پہ موجودگی سے اتنا تو سمجھ آ گیا ہے کہ ہمارے دفاعی اور سکیورٹی امور کے ماہر ایسے بھی کوئی ماہر نہیں تھے۔

خارجہ امور کے ارسطوؤں نے طالبان اور افغان معاملات پہ کوئی ایسے جھنڈے نہیں گاڑے کہ ہم واہ واہ کریں۔ بالکل ایسے ہی افغان پالیسی کی گردان تو بہت ہے مگر کوئی پالیسی سرے سے ہے بھی کہ نہیں یا بس یونہی سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح انتظار میں ہیں کہ چھ آجائے تو چال چلیں۔

افغان طالبان کی انڈیا سے بڑھتی پینگیں، پاکستان افغان سرحدی جنگ اور ٹی ٹی پی کی ریاستِ پاکستان کے خلاف پھرتیاں اشارہ ہیں کہ اب کی بار کابل کے ہوٹل میں چائے کا کپ لہرانے سے کام نہیں چلے گا۔ اب سکیورٹی اداروں، قبائل، مقامی سیاست دانوں، صوبائی حکومت اور وفاق سب کو ایک دوسرے کو سننا ہو گا، سب کو مل کر واقعتاً کسی دیرپا افغان پالیسی کو تشکیل دینا ہو گا اور ٹی ٹی پی سے امن معاہدے کے سراب کا پیچھا چھوڑنا ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان