پاکستان کے دفتر خارجہ نے جمعرات کو بتایا کہ افغانستان نے اپنی سرزمین پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر شدت پسند گروہوں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ناصر اندرابی نے آج ہفتہ وار بریفنگ میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’میری اطلاعات کے مطابق افغان طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر فتنہ خوارج اور فتنہ ہندوستان کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔‘
انہوں نے اپنا جواب جاری رکھتے ہوئے کہا ’وہ (افغان طالبان) اس حوالے سے مختلف جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر سکتے۔ تاہم ان کی موجودگی کے اعتراف پر وہ متفق دکھائی دیتے ہیں۔‘
پاکستان کا موقف رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود ہے اور وہ وہاں سے پاکستان کے خلاف حملوں میں ملوث ہیں۔ تاہم افغانستان اس دعوے کی تردید کرتا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی افغانستان میں موجودگی دونوں ملکوں میں حالیہ شدید کشیدگی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان اکتوبر کے اوائل میں سرحدی جھڑپوں کے دوران درجنوں اموات کے بعد قطر اور ترکی کی ثالثی میں امن مذاکرات کا پہلا دور دوحہ میں ہوا، جہاں 19 اکتوبر کو دونوں ممالک میں جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔
بعد ازاں 25 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں چار دن تک جاری رہنے والا مذاکرات کا دوسرا دور ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔
پاکستان نے 29 اکتوبر کو استنبول مذاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری مخالف فریق پر ڈالی تھی۔
ترجمان ناصر اندرابی نے آج بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان چھ نومبر کو مذاکرات کا آئندہ دور ہونے والا ہے۔
پاکستان مزید کشیدگی نہیں چاہتا، لیکن طالبان حکومت جائز سکیورٹی خدشات دور کرے: ترجمان دفتر خارجہ pic.twitter.com/XekUyT1E2O
— Independent Urdu (@indyurdu) October 31, 2025
’ان مذاکرات کے اختتام سے پہلے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا قبل از وقت ہوگا۔ حتمی فیصلہ مذاکرات کے باضابطہ طور پر مکمل ہونے کے بعد سامنے آئے گا۔‘
دونوں ملکوں میں کشیدگی کے سبب سرحدی راستے بدستور بند ہیں جن کی وجہ سے دونوں اطراف تجارت رکی ہوئی ہے۔
سرحد کھولنے سے متعلق ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا ’سرحد کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ مکمل سکیورٹی جائزے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’سرحد کی بندش کا فیصلہ موجودہ سکیورٹی صورت حال کے تفصیلی جائزے کے بعد کیا گیا ہے اور یہ بندش آئندہ اطلاع تک برقرار رہے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغان سرزمین پر دہشت گرد عناصر کی موجودگی پاکستان کے لیے سکیورٹی خدشات میں اضافہ کرتی ہے، اس لیے سرحد کی صورت حال کا مسلسل جائزہ ضروری ہے۔‘
استبول میں مذاکرات کے حالیہ دور کی ناکامی کے بعد پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں اسلام آباد ہر صورت افغانستان سے تحریری معاہدہ چاہتا ہے۔
تحریری یقین دہانیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا ’یہ بھی مذاکرات کا حصہ ہے جو ایک مسلسل عمل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم اگلے مرحلے یعنی چھ نومبر کے مذاکرات تک انتظار کریں۔‘
انڈیا نے جمعرات کو بتایا تھا کہ امریکہ نے اسے ایران کی چاہ بہار بندرگاہ چلانے کے لیے چھ ماہ کی پابندیوں سے استثنیٰ دے دیا ہے۔ اس معاملے پر بھی بریفنگ میں بات ہوئی اور ترجمان دفتر خارجہ نے انڈیا کو ’خبردار کیا کہ وہ اس استثنیٰ کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے استعمال نہ کرے۔‘
دوسری جانب پاکستان کی غزہ میں بین الاقوامی سٹیبیلائزیشن فورس میں شمولیت سے متعلق ناصر اندرابی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس معاملے پر فریقین سے بات چیت جاری ہے۔
فورس کے لیے پاکستانی افواج بھیجنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ’پاکستان اس معاملے پر متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت اور رابطے میں ہے، بالخصوص علاقائی ممالک کے درمیان بات چیت جاری ہے۔ تاہم ابھی اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔‘
بین الاقوامی سٹیبیلائزیشن فورس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بنائی گئی ایک سکیورٹی فورس ہے جسے رواں برس ستمبر میں غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے پیش کیے گئے امن منصوبے میں شامل کیا گیا تھا۔
یہ فورس عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے قائم کی جائے گی تاکہ غزہ کی پٹی میں سکیورٹی فراہم کی جا سکے۔