جب گوگل نے نومبر میں اپنا تازہ ترین مصنوعی ذہانت ماڈل متعارف کرایا، جو حریف چیٹ جی پی ٹی کے اجرا کے تین سال بعد آیا تو ٹیکنالوجی کی اس دیوہیکل کمپنی نے اسے ’ذہانت کے ایک نئے دور‘ سے تعبیر کیا۔
جیمینائی تھری زیادہ تیز تھا۔ استدلال میں بہتر تھا اور اس نے ہیومینٹی کے لاسٹ ایگزام میں ریکارڈ اسکور حاصل کیا۔ یہ ایک ایسا امتحان ہے جسے مصنوعی ذہانت کی سکیورٹی پر کام کرنے والے محققین نے اس مقصد سے تیار کیا کہ ایسی مصنوعی ذہانت کی نشاندہی کی جا سکے جو انسانی ذہانت کے برابر ہو یا اس سے آگے نکل سکے۔
گوگل کے اعلان میں وہی مبالغہ آمیز انداز تھا جو بڑی مصنوعی ذہانت کمپنیوں کے نئے ماڈلز کی لانچ کے ساتھ عام ہو چکا ہے لیکن اس بار معاملہ مختلف دکھائی دیا۔
ابتدائی صارفین نے فوراً محسوس کیا کہ نیا مصنوعی ذہانت ماڈل محض مرحلہ وار اپ ڈیٹ نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کا ایک بالکل نیا طریقہ ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنی سیلزفورس کے چیف ایگزیکٹیو مارک بینیوف نے ‘استدلال، رفتار، تصاویر، ویڈیو ہر چیز’ میں اس جست کو ‘دیوانہ کن’ قرار دیا۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا: ’میں تین سال سے روزانہ چیٹ جی پی ٹی استعمال کر رہا ہوں۔ ابھی جیمنائی تھری پر دو گھنٹے گزارے ہیں۔ میں واپس نہیں جا رہا۔‘
وہ اکیلے نہیں تھے۔ مصنوعی ذہانت کے بانی ماہر جیوفری ہنٹن، جنہیں بعض اوقات مصنوعی ذہانت کا گاڈفادر کہا جاتا ہے، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ گوگل اب ‘آہستہ آہستہ چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑنا شروع ہو گیا ہے’ اور مزید کہا کہ ’میرا اندازہ ہے کہ گوگل ہی جیتے گا۔‘
ایک اور تجزیہ کار نے جیمنائی تھری کو ’اب تک کا بہترین ماڈل‘ قرار دیا، جب اس نے صنعت کے بیس معیاری ٹیسٹوں میں سے انیس میں تمام دیگر ماڈلز کو شکست دی۔ یہ وہ امتحانات ہیں جن کے ذریعے کمپنیاں مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو ناپتی ہیں۔ واحد ٹیسٹ جس میں یہ دوسرے نمبر پر رہا، کوڈنگ سے متعلق تھا، جہاں اینتھروپک کے کلاڈ ماڈل نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اس کامیابی کے بعد چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی نے ‘کوڈ ریڈ’ کا اعلان کیا — گوگل کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی کے اجرا پر اپنے کوڈ ریڈ کے اعلان کے تین سال بعد۔
ترقی کی اس تیز رفتار نے کچھ لوگوں کو یہ سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا کہ گوگل نے اتنے کم وقت میں یہ سب کیسے حاصل کر لیا، خاص طور پر جب علیحدہ جیمینائی ایپ صرف گذشتہ سال لانچ ہوئی تھی۔ ٹیکنالوجی دیوہیکل کے اندر کام کرنے والوں نے جیمنائی کی کامیابی کا ‘راز’ یہ بتا کر بیان کیا کہ انہوں نے بس ہر چیز کو بہتر بنا دیا۔ مگر اصل وجہ شاید اس سے کہیں زیادہ تشویشناک ہو۔
دو دہائیوں سے زائد عرصے سے گوگل انٹرنیٹ تک رسائی کا مرکزی دروازہ رہا ہے۔ اس کا سرچ انجن وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے زیادہ تر لوگ ویب پر معلومات تک پہنچتے اور انہیں تلاش کرتے ہیں، جبکہ پبلشرز اور مواد تخلیق کرنے والے اسی پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ ان کی جانب ٹریفک بھیجے۔
ویب سائٹس گوگل کے سرچ کرالر بوٹس کو خاص رسائی دیتی ہیں تاکہ وہ نتائج کے صفحے پر نظر آ سکیں، اور ہر کلک کے ساتھ سائٹس کو وزیٹرز ملتے ہیں جن سے وہ آن لائن اشتہارات، سبسکرپشنز اور فروخت کے ذریعے کمائی کرتی ہیں۔
لیکن جیسے جیسے انٹرنیٹ سرچ سے ہٹ کر مصنوعی ذہانت کی طرف منتقل ہو رہا ہے — جہاں نام نہاد زیرو کلک سرچز اب تمام سوالات کے ساٹھ فیصد سے زیادہ بنتی جا رہی ہیں — گوگل نے بطور غالب سرچ انجن اپنی مراعات یافتہ حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ویب تک دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رسائی حاصل کر لی ہے۔ اب وہ اسی بالادستی کو اپنے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کی تربیت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
انٹرنیٹ کے نام نہاد ’مڈل مین‘ کے طور پر سکیورٹی کمپنی کلاؤڈ فلیئر پانچ میں سے ایک سے زیادہ ویب سائٹس کو سائبر حملوں سے بچانے کے لیے حفاظتی دیوار کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس وجہ سے اسے یہ دیکھنے کا ایک منفرد زاویہ حاصل ہے کہ کمپنیاں اپنے ماڈلز کی تربیت کے لیے مصنوعی ذہانت بوٹس کے ذریعے ویب سائٹس کو کس طرح کھنگال رہی ہیں۔
کلاؤڈ فلیئر کے چیف ایگزیکٹیو میتھیو پرنس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا، ’کلاؤڈ فلیئر ویب کے ایک بڑے حصے، یعنی 20 فیصد سے زائد، کے سامنے بیٹھا ہے، اس لیے ہمارے پاس ایک نمائندہ نمونہ موجود ہے جس سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گوگل کے بوٹس کو دیگر مصنوعی ذہانت کمپنیوں کے مقابلے میں ویب تک کتنی زیادہ رسائی حاصل ہے، اور اس کا جواب حیران کن ہے۔’
کلاؤڈ فلیئر کے اعداد و شمار، جو دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ شیئر کیے گئے، ظاہر کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی تربیت کے معاملے میں گوگل کو اپنے حریفوں پر زبردست برتری حاصل ہے۔
گوگل کے مصنوعی ذہانت کرالرز، جنہیں وہی رسائی حاصل ہے جو اس کے سرچ انجن کے کرالرز کو ہوتی ہے، اوپن اے آئی کے مقابلے میں ویب کا 322 فیصد زیادہ حصہ دیکھتے ہیں۔ یہ میٹا کے مقابلے میں 478 فیصد، اینتھروپک کے مقابلے میں 484 فیصد اور مائیکروسافٹ کے مقابلے میں 437 فیصد زیادہ ہے۔
میتھیو پرنس کہتے ہیں کہ ’اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ جس کے پاس سب سے زیادہ ڈیٹا تک رسائی ہو گی وہی جیتے گا، تو پھر گوگل کو ہمیشہ مارکیٹ میں ایسی برتری حاصل رہے گی جسے کوئی ختم نہیں کر سکے گا۔ یہ غیر معمولی حد تک ناانصافی لگتی ہے۔’
انہوں نے کہا کہ ’گوگل ہونے کا ایک بہت بڑا ساختی فائدہ ہے، اور اگر آپ پوچھیں کہ جیمینائی نے ابھی اوپن اے آئی اور اس میدان کے باقی سب کو کیسے پیچھے چھوڑ دیا، تو اس کی وجہ نہ چپس ہیں، نہ محققین، نہ یہ کہ وہ زیادہ ذہین ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ گوگل کو زیادہ ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے، اور یہی اسے غیر منصفانہ برتری دیتی ہے۔ اور گوگل کو یہ ڈیٹا صرف اس لیے ملتا ہے کیوں کہ وہ سرچ میں اپنی اجارہ داری کو استعمال کر رہا ہے۔‘
جیمینائی تھری کے صارفین کی تعداد اب بھی چیٹ جی پی ٹی سے کم ہے یعنی تقریباً 65 کروڑ صارفین کے مقابلے میں 80 کروڑ لیکن اس کی رفتار سے بڑھوتری کہیں زیادہ تیز ہے۔ اگست میں نینو بنانا امیج جنریٹر کے اجرا کے بعد، جو جیمنائی میں شامل ہے، صارفین کی تعداد میں 20 کروڑ کا اضافہ ہوا۔
جیمینائی تھری دیگر گوگل مصنوعات جیسے سرچ، جی میل اور ڈرائیو میں بھی شامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ دنیا بھر میں اربوں لوگوں تک پہنچتا ہے۔ اینڈرائیڈ، کروم، یوٹیوب اور میپس کے ساتھ مل کر گوگل کے پاس ایسی سات مصنوعات ہیں جن کے صارفین کی تعداد دو ارب سے زیادہ ہے۔
جیمنائی تھری اب بھی مکمل نہیں۔ اس میں اب بھی ہیلوسینیشنز کا مسئلہ موجود ہے، یہ بڑے کوڈ بیس کی ڈی بگنگ جیسے تکنیکی کاموں میں ناکام ہو سکتا ہے، اور بعض کے مطابق اس میں حد سے زیادہ سخت حفاظتی خصوصیات ہیں جو اس کی کارکردگی کو محدود کرتی ہیں۔
لیکن ان خامیوں کے باوجود یہ مقابلے سے آگے ہے، اور اگر حالات نہ بدلے تو ممکن ہے وہیں قائم رہے۔ پرنس کے مطابق چیزوں کو زیادہ منصفانہ بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ گوگل کے مصنوعی ذہانت کرالر کو اس کے سرچ کرالر سے الگ کر دیا جائے۔
وہ پہلے ہی ریگولیٹرز سے ملاقات کر چکے ہیں اور برطانیہ کے کمپیٹیشن اینڈ مارکیٹس اتھارٹی (سی ایم اے) پر زور دے رہے ہیں کہ وہ گوگل پر سخت قواعد نافذ کرے تاکہ دیگر اسٹارٹ اپس مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں مقابلہ کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں کہ ’خالصتاً انصاف کے نقطہ نظر سے میرا ماننا ہے کہ گوگل کو بھی اسی میدان میں سب کی طرح انہی قواعد کے تحت کھیلنا چاہیے۔ اور ایسا کرنے کا سب سے آسان طریقہ، جس پر سی ایم اے اس وقت غور کر رہا ہے، یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت اور سرچ کے کرالرز کو الگ کر دیا جائے۔ اس طرح گوگل کو مصنوعی ذہانت میں بالکل شروع سے آغاز کرنا پڑے گا، جیسے باقی تمام مصنوعی ذہانت کمپنیاں کر رہی ہیں۔’
اکتوبر میں سی ایم اے نے برطانیہ کے نئے ڈیجیٹل مارکیٹس نظام کے تحت گوگل سرچ کو اسٹریٹجک مارکیٹ اسٹیٹس دیا، جس سے اسے یہ اختیار ملے گا کہ وہ گوگل کے کام کرنے کے طریقے پر نئے قواعد و ضوابط نافذ کر سکے۔
گوگل نے اس کے جواب میں دعویٰ کیا کہ ‘حد سے زیادہ سخت قواعد’ جدت اور ترقی کو دبائیں گے اور مصنوعات کے اجرا کو سست کر دیں گے۔ ایک ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو یہ بھی بتایا کہ پبلشرز کے پاس پہلے ہی ایسے ٹولز موجود ہیں جن کے ذریعے وہ یہ کنٹرول کر سکتے ہیں کہ گوگل ان کے مواد تک کیسے رسائی حاصل کرتا ہے۔
ان میں سے ایک ٹول گوگل ایکسٹینڈڈ ہے، جو ویب سائٹ مالکان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ آیا ان کا مواد مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے استعمال ہو یا نہیں، اور گوگل کا کہنا ہے کہ اس سے سرچ صفحات میں شمولیت متاثر نہیں ہوتی۔ اس وقت گوگل مصنوعی ذہانت کی تربیت کے لیے آپٹ آؤٹ ماڈل پر کام کرتا ہے، یعنی ویب سائٹس کو خود اپنے کوڈ میں مخصوص ہدایات شامل کر کے اسے روکنا پڑتا ہے۔
پرنس خبردار کرتے ہیں کہ اگر نئے قواعد متعارف نہ کرائے گئے تو مصنوعی ذہانت کی دوڑ شاید پہلے ہی ختم ہو چکی ہو، اور گوگل اسی طرح مصنوعی ذہانت پر اجارہ داری قائم کر سکتا ہے جیسے اس نے آن لائن سرچ میں کی۔
وہ کہتے ہیں: ’گوگل منصفانہ قواعد کے تحت کھیلنے سے انکار کر رہا ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں مسابقتی اداروں کو آگے آ کر کہنا چاہیے کہ یہ مارکیٹ کی ناکامی ہے۔ آپ سرچ میں اپنی اجارہ داری کو استعمال کر کے مصنوعی ذہانت میں اجارہ داری قائم نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’گوگل نے دنیا کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اسے ایسی مراعات یافتہ رسائی حاصل ہے کہ مجھے خدشہ ہے مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ اور یہ بات غیر معمولی حد تک ناانصافی لگتی ہے۔‘
© The Independent