حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم لانے کا عندیہ دیا ہے، جس کا انکشاف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹویٹ میں کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کو اس ترمیم کی منظوری کے لیے ان کی جماعت سے حمایت درکار ہے۔
مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی ایوارڈز میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی کے اختیارات سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔
آئین پاکستان کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں 224 اور ایوان بالا (سینیٹ) میں 64 اراکین کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ایک وفد نے چیئرمین پیپلز پارٹی اور صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی، تاہم بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کی حمایت اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس سے مشروط کی ہے۔
اس صورت حال میں حکومت کے لیے کس حد تک ممکن ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد 27 ویں ترمیم منظور کروا سکے۔ نمبر گیم کی صورت حال کیا ہے؟ کیا اب بھی انہیں پی ٹی آئی کی ضرورت ہوگی؟ اور پارلیمان میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے یہاں یہی جاننے کی کوشش کی ہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں مختلف سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔
قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے 125 ارکان، پیپلز پارٹی کے 74، ایم کیو ایم پاکستان کے 22، مسلم لیگ ق کے پانچ، استحکام پاکستان پارٹی کے چار جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ضیا کے ایک ایک رکن حکومتی بینچز پر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ چار آزاد اراکین بھی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں، یوں حکومتی بینچز پر کل 237 ارکان موجود ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن بنچز پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے 75 اراکین ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے 10 ارکان، جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک، ایک رکن شامل ہیں۔
اس طرح اپوزیشن بینچز پر مجموعی طور پر 89 اراکین موجود ہیں۔
ان اعداد و شمار کے مطابق حکومت اگر اپنے تمام اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب رہتی ہے تو قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کسی بڑی رکاوٹ کے بغیر ممکن ہو سکتی ہے۔
ایوان بالا یعنی سینیٹ میں حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت 61 اراکین کی حمایت موجود ہے۔
ان میں پیپلز پارٹی کے 26، مسلم لیگ ن کے 20، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، ایم کیو ایم کے تین، مسلم لیگ ق اور نیشنل پارٹی کا ایک، ایک، اور تین آزاد سینیٹرز (عبدالکریم، عبدالقادر اور محسن نقوی) شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے علاوہ تین سینیٹرز فیصل واوڈا، انوار الحق کاکڑ اور اسد قاسم ایسے سینیٹرز ہیں جو کسی جماعت سے وابستہ نہیں لیکن مختلف قانون سازی کیے جانے کے دوران عمومی طور پر حکومت کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چھ آزاد اراکین، جے یو آئی کے سات، مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کے ایک، ایک سینیٹر موجود ہیں۔
اپوزیشن بینچز کی کل تعداد 30 بنتی ہے، جو ممکنہ طور پر 27ویں آئینی ترمیم کی مخالفت کرے گی۔
اس سے قبل 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی کے تین اور آزاد سینیٹر نسیمہ احسان کی بھی حمایت ملی تھی۔
اگر یہی فارمولا برقرار رہتا ہے تو حکومت کو سینیٹ میں ممکنہ طور پر 65 ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں، جو کہ دو تہائی اکثریت کے لیے درکار 64 ووٹوں سے ایک ووٹ زیادہ ہیں۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں کے موقف اور ممکنہ غیر حاضر اراکین کی صورت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں صورت حال تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔
