امریکی شہر نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی نے منگل کی شب (پاکستان میں بدھ کی صبح) الیکشن نتائج کے فوراً بعد فتح کا جشن مناتے ہوئے انتخابات میں ان کی مخالفت کرنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم میں سے کسی تک پہنچنے کے لیے آپ کو ہم سب سے گزرنا پڑے گا۔‘
بروکلین پیراماؤنٹ تھیئٹر میں ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: ’ڈونلڈ ٹرمپ، چونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ دیکھ رہے ہیں، اس لیے میرے پاس آپ کے لیے چار الفاظ ہیں: والیوم کو بڑھا دیں!‘
صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ظہران ممدانی جیت گئے تو وہ وفاقی فنڈنگ روک دیں گے اور شہر پر قبضہ کر لیں گے۔
امریکی میڈیا نے بدھ کی صبح بتایا تھا کہ ڈیموکریٹ مسلم امیدوار ظہران ممدانی تین مرتبہ کے سابق گورنر اور آزاد امیدوار اینڈریو کومو اور رپبلکن حریف کرٹس سلوا کو شکست دے کر نیویارک سٹی کے میئر منتخب ہو گئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے نیویارک کے میئر کے لیے ہونے والے انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیموکریٹک امیدوار ظہران ممدانی نے 50.5 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے قریب ترین حریف 41.6 فیصد ووٹوں کے ساتھ سابق گورنر اور آزاد امیدوار اینڈریو کومو رہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک کی جانب سے ممدانی کی مخالفت کے باوجود انڈین مسلم امیدوار پہلی مرتبہ نیویارک شہر کے میئر منتخب ہوئے۔
نیویارک میئر کے انتخاب میں اس وقت نئی تاریخ رقم ہوئی، جب 2001 کے بعد اس الیکشن میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔
ظہران نے اپنے خطاب میں کہا: ’جب تک ہمیں یاد ہے نیویارک کے محنت کشوں کو امیروں اور تعلقات رکھنے لوگوں نے بتایا ہے کہ طاقت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ گودام کے فرش پر ڈبوں کو اٹھانے سے انگلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ڈیلیوری بائیک کے ہینڈل کی سلاخوں سے ہتھیلیاں، کچن کے جلنے سے داغے ہوئے دستے۔ یہ وہ ہاتھ نہیں ہیں، جن کو طاقت پکڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔
’اور پھر بھی گذشتہ 12 مہینوں میں آپ نے کسی بڑی چیز تک پہنچنے کی ہمت کی ہے۔ آج رات، تمام تر مشکلات کے باوجود ہم نے اسے حاصل کر لیا ہے۔‘
نو منتخب ڈیموکریٹ میئر نے کہا: ’نیویارک ایک ایسا شہر رہے گا جو تارکینِ وطن کا ہے، ایک ایسا شہر جو تارکینِ وطن نے بنایا، انہی کے ذریعے چلتا ہے اور آج کی رات سے ایک تارکِ وطن کی قیادت میں ہوگا۔‘
اینڈریو کومو کا ذکر کرتے ہوئے ظہران ممدانی نے کہا کہ ’ہم نے ایک سیاسی خاندان کا تختہ الٹ دیا ہے۔ میں اینڈریو کوومو کی نجی زندگی میں صرف بہترین کی خواہش کرتا ہوں، لیکن آج رات آخری وقت ہو گا، جب میں صفحہ پلٹتے ہوئے ان کا نام بولوں گا۔‘
پولنگ سٹیشنز پر شہریوں کی بڑی تعداد موجود رہی، جہاں 17 لاکھ سے زیادہ ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ نیو یارک کے میئر کے طور پر ظہران ممدانی کا انتخاب بائیں بازو کے مقامی قانون سازوں کے لیے ایک غیر معمولی اضافے کا باعث بنتا ہے۔
جون میں ڈیموکریٹک پارٹی کے پرائمری میں حیرت انگیز فتح کے بعد سے، نیویارک کے لوگ ٹیلی ویژن پر ان کے مسکراتے چہرے کو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔
34 سالہ ظہران یوگنڈا میں انڈین نژاد خاندان میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ 2018 میں انہیں امریکی شہریت ملی تھی۔
ظہران ممدانی فلم ساز میرا نائر اور پروفیسر محمود ممدانی کے برخوردار ہیں۔
انہوں نے ایلیٹ لبرل خاندانوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے نوجوانوں کے ذریعے ہموار ہونے والے راستے پر چلتے ہوئے ایلیٹ برونکس ہائی سکول آف سائنس میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد ریاست مین میں بوڈوئن کالج میں داخلہ لیا، یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے، جسے ترقی پسند سوچ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
’ینگ الائچی‘ کے نام سے انہوں نے 2015 میں ریپنگ کی دنیا میں قدم رکھا، جو ہپ ہاپ گروپ ’داس ریسسٹ‘ سے متاثر ہوا، جس میں انڈین نژاد دو اراکین تھے، جو برصغیر کے حوالوں اور ٹراپس کے ساتھ ساز بجاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ظہران ممدانی کی پیشہ ورانہ موسیقی کی مسابقتی دنیا میں قدم رکھنے کی کوشش دیرپا نہیں رہی، اداکار سے سیاست دان بننے والے نے خود کو ’دوسرے درجے کا فنکار‘ قرار دیا۔
انہوں نے سیاست میں اس وقت دلچسپی لی جب انہیں معلوم ہوا کہ ریپر ہمانشو سوری (عرف ہیمس) سٹی کونسل کے امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ اس مہم میں بطور کارکن شامل ہو گئے۔
ممدانی مالی طور پر مشکلات کا شکار گھروں کے مالکان کو اپنے گھروں کو کھونے سے بچنے میں مدد کرتے ہوئے فورکلوزر سے بچاؤ کے مشیر بن گئے۔
وہ 2018 میں کوئینز سے ایک قانون ساز کے طور پر منتخب ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر غریب اور تارکین وطن کمیونٹیز کے حمایتی ہیں اور جو نیویارک کی ریاستی اسمبلی میں اس علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ورجینیا میں بھی پہلی مسلم نائب گورنر غزالہ ہاشمی کامیاب
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کی ریاست ورجینیا میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار غزالہ فاطمہ ہاشمی نے نائب گورنر کا عہدہ جیت لیا یوں۔ وہ ریاست کی تاریخ میں پہلی مسلم اور انڈین نژاد امریکی خاتون بن گئیں، جو اس منصب تک پہنچی ہیں۔
غزالہ ہاشمی نے ریپبلکن امیدوار جان ریڈ کو شکست دی۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق انہیں تقریباً 53 سے 55 فیصد ووٹ ملے، جب کہ ان کے مد مقابل کو 44 سے 46 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔
امریکہ میں منگل کو ہونے والے گورنرز کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے دو اہم ریاستوں نیو جرسی اور ورجینیا میں کامیابی حاصل کی، جسے ماہرین نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اثر و رسوخ کے خلاف ڈیموکریٹس کے لیے ایک حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیا ہے۔
نیو جرسی میں ڈیموکریٹ امیدوار مائیکی شیریل نے رپبلکن امیدوار جیک شیٹاریلی کو شکست دے کر گورنر کا عہدہ جیت لیا۔
اس کامیابی کے ساتھ نیو جرسی میں گورنر کی نشست تیسری مسلسل مدت کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس چلی گئی۔ شریل، جو نیوی کی سابق پائلٹ اور کانگریس کی رکن رہ چکی ہیں، نے اپنی مہم کے دوران ٹرمپ مخالف مؤقف کو نمایاں طور پر اجاگر کیا۔
دوسری جانب ورجینیا میں ڈیموکریٹ امیدوار ابیگیل سپینبرگر نے رپبلکن امیدوار اور موجودہ لیفٹیننٹ گورنر ونسوم ارل سیئرز کو شکست دی۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سپینبرگر ریاست کی پہلی خاتون گورنر منتخب ہوئی ہیں۔ ان کی جیت کو ورجینیا میں ڈیموکریٹس کے لیے ایک تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جہاں پچھلے انتخابات میں رپبلکنز نے غیر متوقع برتری حاصل کی تھی۔