افغانستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ مذاکرات کے ابتدائی دور ناکامی سے دوچار ہوئے تو سفارتی بیانات کے شور میں ایک غیر متوقع آواز ابھری، شاعری کی۔ طالبان رہنما انس حقانی نے استنبول مذاکرات کے بعد ایک غزل لکھی جو صرف ادبی تخلیق نہیں بلکہ ایک گہرا سیاسی پیغام بھی بن گئی۔
جنگ، امن اور مکالمے کے درمیان لکھی گئی یہ غزل آج کابل اور اسلام آباد کے تعلقات پر ایک نیا زاویہ پیش کر رہی ہے۔
جنگ و امن کے درمیان ایک غزل
افغانستان اور پاکستان کے مابین مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں اور ایک اور دور جلد متوقع ہے۔ مذاکرات میں کن امور پر بات چیت ہوئی اور ناکامی کی اصل وجوہات کیا ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں۔
تاہم ان دنوں ایک چیز جو روزانہ دیکھنے اور سننے کو ملی، وہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر تنقیدی اور طنزیہ بیانات کا تبادلہ تھا۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا روزانہ کی بنیاد پر پاکستانی میڈیا پر پرائم ٹائم میں جلوہ افروز ہونے والا انداز قابلِ توجہ رہا۔
پاکستانی وفد میں کون کون شامل تھا، اس حوالے سے اسلام آباد نے خاموشی اختیار کی، البتہ میڈیا میں مختلف نام گردش کرتے رہے۔ دوسری جانب افغان وفد کے تمام اراکین کے نام منظرِ عام پر آئے، اور انہی میں ایک نمایاں نام انس حقانی کا بھی تھا۔
انس حقانی کون ہیں؟
انس حقانی، طالبان رہنما سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کا تعلق افغانستان کے ایک ایسے گھرانے سے ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے عسکری اور فکری جدوجہد میں نمایاں رہا ہے۔ اگرچہ ان کا پس منظر جنگی ہے، مگر انس نے اپنی شناخت شاعری، مکالمے اور نرمی کے ذریعے بنانے کی کوشش کی ہے۔
کبھی وہ کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں تو کبھی مشاعروں میں اشعار سنتے اور سناتے ہیں۔ انس عربی اور پشتو دونوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں اور طالبان کے اندر ابھرتی ہوئی اس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جو قلم اور مکالمے کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
ایک غزل جو سیاسی اعلان بن گئی
استنبول مذاکرات کے اختتام کے بعد، انس حقانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک غزل شائع کی۔ یہ غزل محض ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ مذاکرات کی ناکامی پر ایک شعری ردِعمل تھی، جس میں جنگ اور امن دونوں کے زاویے یکجا ہیں۔
څه نازک حالت او څه نازکه فیصله
پام کوه چې و نکړې چابکه فیصله
ترجمہ: کیا نازک وقت ہے، اور کیسی نازک فیصلہ
خیال رکھنا، جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت کرنا۔
یہ اشعار اس وقت کے ماحول کا عکس ہیں، جہاں سفارت کے بجائے سخت بیانات اور الزام تراشی غالب نظر آ رہی تھی۔
انس کی یہ غزل دراصل ایک ادبی انتباہ ہے کہ فیصلے اگر جذبات میں کیے گئے تو انجام خطرناک ہو سکتا ہے۔
غزل کے دو مصرعے خاص طور پر توجہ طلب ہیں:
بیا به د جیلم په ښار کې ووینې لښکرې
یو ځل که تر سره شي اټکه فیصله
ترجمہ: پھر تم جہلم میں لشکر دیکھو گے
اگر ایک بار اٹک والا فیصلہ ہو گیا۔
یہ الفاظ پاکستانی جغرافیے کے نام ہیں۔ ان میں دراصل یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر تنازع شدت اختیار کر گیا تو اثرات ڈیورنڈ لائن کے ایک طرف تک محدود نہیں رہیں گے۔
نرمی کی زبان، مگر حقیقت کی سختی
انس اپنی غزل میں نہ صرف جنگ کے خطرے کی بات کرتے ہیں بلکہ امن اور تدبر کی دعوت بھی دیتے ہیں:
مه خوږوه زړونه د پېغور په تېره ژبه
دلته جرګې کړې ده هلکه فیصله
ترجمہ: تلخ زبان سے دلوں کو مت دکھاؤ
یہاں جرگہ بیٹھا ہے، اے نوجوان! سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔
یہ شعر سفارت اور مکالمے کی زبان میں طالبان کے ایک نئے لہجے کو ظاہر کرتا ہے، ایک ایسا لہجہ جو صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ گفتگو کے میدان میں بھی اپنا وجود منوانا چاہتا ہے۔
مگر آخری شعر میں شاعر ایک تلخ حقیقت کا اعتراف بھی کرتا ہے:
شخړې په خبرو حل کېدلای شي انسه
کله کله نه شي بې ټوپکه فیصله
ترجمہ: جھگڑے بات چیت سے بھی حل ہو سکتے ہیں، اے انس
لیکن کبھی کبھی بندوق کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا۔
یہ مصرع انس حقانی کی داخلی کشمکش کو بیان کرتا ہے، امن کی تمنا اور طاقت کے اعتراف کے درمیان کھڑا ایک نوجوان شاعر۔
سیاسی پس منظر: مذاکرات میں تلخی اور ناکامی کی وجوہات
استنبول مذاکرات کی ناکامی کے بعد منظرِ عام پر آنے والی رپورٹس کے مطابق، مذاکرات کا ماحول تلخ رہا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی صرف پالیسی اختلافات کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ اعتماد کے بحران اور سفارتی لہجے کی تلخی نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا۔
انس حقانی کی غزل اسی فضا میں لکھی گئی، ایک ایسی فضا میں جہاں سیاسی بیانیے شکست کھا گئے، اور ایک شاعر نے لفظوں کے ذریعے اپنی قوم کا موقف پیش کیا۔
یہ غزل اب صرف ایک ادبی تخلیق نہیں بلکہ سیاسی پیغام کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، ایسا پیغام جو شاید مذاکرات کی میز پر نہیں، مگر ایک شاعر کے مصرعوں میں صاف سنائی دیتا ہے۔
نوٹ: اس تحریر کے مصنف احمد ولی مجیب افغان صحافی ہیں جو ایک طویل عرصہ پاکستان میں رہے ہیں۔ اس وقت وہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔