ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے الزام پر پاکستان کی تردید

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ چین، روس، شمالی کوریا اور پاکستان جوہری ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں۔

30 جون 1998 کو ایک سکیورٹی اہلکار بلوچستان کے ضلع چاغی میں اس پہاڑی کے سامنے الرٹ کھڑا ہے، جہاں پاکستان نے 28 مئی کو جوہری آلات کا تجربہ کیا تھا (ذوالفقار بلتی/ پی آئی ڈی/ اے ایف پی)

پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ان چند ممالک میں شامل ہے، جو فعال طور پر جوہری ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں۔

ایک سینیئر پاکستانی سکیورٹی عہدیدار نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ان کا ملک ’نہ تو سب سے پہلے جوہری تجربات کرنے والا (ملک) تھا اور نہ ہی سب سے پہلے دوبارہ ان کا آغاز کرے گا۔‘

یہ غیر معمولی ردعمل ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف امریکی صدر کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں، جنہوں نے مئی میں ایک مختصر فوجی تصادم کے بعد انڈیا کے ساتھ جنگ بندی کروائی، تاہم انڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو کم اہمیت دی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے پینٹاگون کو جوہری ہتھیاروں کے تجربات دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی ہے، نے گذشتہ ہفتے سی بی ایس نیوز سے گفتگو میں اپنے فیصلے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ چین، روس، شمالی کوریا اور پاکستان بھی جوہری ہتھیاروں کے تجربات کر رہے ہیں۔

انہوں نے پروگرام 60 منٹس میں انٹرویو کے دوران کہا: ’روس تجربات کر رہا ہے، چین تجربات کر رہا ہے، لیکن وہ اس بارے میں بات نہیں کرتے۔۔ ہم بھی تجربات کریں گے، کیونکہ وہ کرتے ہیں اور دوسرے بھی کرتے ہیں اور یقیناً شمالی کوریا تجربات کر رہا ہے۔ پاکستان بھی تجربات کر رہا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات کو جوہری میزائلوں کے تجربات کے ساتھ خلط ملط کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ نے مؤقف اپنایا کہ ممالک ’آپ کو اس بارے میں نہیں بتاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’جتنی طاقتور یہ قومیں ہیں، دنیا بہت بڑی جگہ ہے۔ لازمی نہیں کہ آپ کو پتہ چلے کہ وہ کہاں تجربات کر رہے ہیں۔ وہ زمین کے بہت گہرے حصے میں تجربات کرتے ہیں، جہاں لوگوں کو درست طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ تجربے میں کیا ہو رہا ہے۔ آپ بس ہلکی سی لرزش محسوس کرتے ہیں۔

بقول ٹرمپ: ’وہ تجربات کرتے ہیں اور ہم نہیں کرتے۔ ہمیں بھی تجربات کرنے ہوں گے۔‘

گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو حکم دیا کہ وہ ’فوری طور پر‘ ہمارے ’جوہری ہتھیاروں کے تجربات‘‘ شروع کرے، جس سے امریکہ میں تین دہائی پرانی جوہری تجربات کی پابندی ختم ہو گئی اور دنیا کی جوہری طاقتوں کے درمیان ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے خدشات پیدا ہو گئے۔

صدر کے اس حکم نے سائنس دانوں اور ماہرین میں الجھن اور تشویش پیدا کر دی، جنہوں نے خبردار کیا کہ ان کی ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور مبہم ہدایات دہائیوں بعد پہلی بڑی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے مجوزہ تجربات کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی، لیکن اعلان بظاہر امریکہ کی ترقی کو روس اور چین کے جدید جوہری ہتھیاروں کے نظام کے مقابلے میں بڑھانے کے لیے کیا گیا تھا۔ فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق دنیا کی جوہری طاقتوں کے پاس مجموعی طور پر 12,000 سے زیادہ وارہیڈز موجود ہیں۔

صرف امریکہ اور روس کے پاس دنیا کے تقریباً 87 فیصد جوہری ہتھیاروں کے ذخائر ہیں اور 83 فیصد وارہیڈز فوجی استعمال کے لیے دستیاب ہیں۔ باقی برطانیہ، فرانس، چین، انڈیا، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کے پاس ہیں۔

امریکہ نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ 1992 میں کیا تھا اور 1996 میں جامع جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے (Comprehensive Nuclear-Test-Ban Treaty) پر دستخط کیے تھے، جو فوجی یا شہری مقاصد کے تمام جوہری دھماکوں پر پابندی عائد کرتا ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ اس کا آخری جوہری تجربہ 1998 میں ہوا تھا اور اس کے بعد سے اس نے ’جوہری تجربات پر یکطرفہ پابندی‘ برقرار رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان جامع جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے کا رکن نہیں ہے۔

اطلاعات کے مطابق چین نے 1996 کے بعد سے جوہری ہتھیار کا کوئی تجربہ نہیں کیا جبکہ روس کے حالیہ تجربات میں صرف ترسیلی نظام شامل تھے، نہ کہ حقیقی جوہری دھماکے۔

چینی وزارت خارجہ نے پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ نے دہائیوں سے اس غیر رسمی پابندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہونے کے ناتے، چین پرامن ترقی کے لیے پرعزم ہے، جوہری ہتھیاروں کے ’عدمِ استعمال‘ کی پالیسی پر عمل کرتا ہے، دفاعی حکمتِ عملی اپناتا ہے اور اپنے جوہری تجربات پر پابندی کے عزم پر قائم ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان