پاکستانی جوہری تنصیبات سے تابکاری کا اخراج نہیں ہوا، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے تصدیق کی ہے کہ گذشتہ ہفتے انڈیا کے ساتھ عسکری کشیدگی کے بعد پاکستان کی کسی بھی ایٹمی تنصیب سے کوئی تابکاری خارج نہیں ہوئی۔

ایک سیٹلائٹ تصویر میں پی اے ایف بیس مصحف کے تباہ شدہ رن وے پر ریسکیو کی گاڑیوں کا منظر دیکھا جا سکتا ہے (روئٹرز)

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے تصدیق کی ہے کہ گذشتہ ہفتے انڈیا کے ساتھ عسکری کشیدگی کے بعد پاکستان کی کسی بھی ایٹمی تنصیب سے کوئی تابکاری خارج نہیں ہوئی۔

انڈیا اور پاکستان، جو دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، عشروں میں ہونے والے بدترین فوجی تصادم کے بعد جنگ کے دہانے سے واپس آئے۔ اس لڑائی میں 70 سے زائد افراد کی جان گئی۔

ہفتے کے اختتام پر جنگ بندی کے اعلان کے بعد یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ گئیں کہ انڈیا نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کے قریب حملہ کیا تاہم نئی دہلی نے یہ دعویٰ مسترد کر دیا۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ’ادارے کے پاس موجود معلومات کی بنیاد پر پاکستان کی کسی بھی ایٹمی تنصیب سے کسی تابکاری کا اخراج یا رساؤ نہیں ہوا۔‘

انڈیا نے پیر کو نجاب کے علاقے کیرانہ ہلز میں پاکستان کی مبینہ ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے الزام کی تردید کی۔ جب نئی دہلی کی جانب سے اس علاقے پر حملے سے متعلق سوال کیا گیا تو ایئر مارشل اوادھیش کمار بھارتی نے صحافیوں سے کہا: ’شکریہ کہ آپ نے ہمیں بتایا کہ کیرانہ ہلز میں کوئی ایٹمی تنصیب موجود ہے، ہمیں اس کا علم نہیں تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے کیرانہ ہلز کو نشانہ نہیں بنایا، جو کچھ بھی وہاں ہے۔‘

کیرانہ ہلز، جو سرگودھا شہر کے قریب واقع ہیں انہیں 1980 کی دہائی سے پاکستان کے ایٹمی عزائم سے جوڑا جاتا رہا ہے، جب اسلام آباد نے اس علاقے میں متعدد کم اہم ایٹمی تجربات کیے۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، یہ ’کولڈ ٹیسٹ‘ پاکستان کے لیے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ڈیزائن کو بہتر بنانے کے لیے نہایت اہم تھے جن میں زیر زمین بڑے تجرباتی مقامات کی ضرورت نہیں پڑتی۔

نئی دہلی نے دعویٰ کیا کہ اس نے سات مئی کو سورج طلوع ہونے سے پہلے کی گئی فضائی کارروائیوں ’آپریشن سندور‘ کے دوران سرگودھا میں مصحف ایئر بیس سمیت پاکستان کے دیگر مقامات کو نشانہ بنایا۔

انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ فضائی حملے پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر کیے گئے تاکہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے میں جان سے جانے والے 26 افراد، جن میں زیادہ تر ہندو سیاح تھے، کی اموات کا بدلہ لیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی دہلی نے الزام لگایا کہ اس قتل عام میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ اسلام آباد نے یہ الزام مسترد کر دیا اور غیر جانب دار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

حملے کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک سے نکال دیا، ویزے معطل کر دیے، فضائی حدود اور زمینی سرحدیں بند کر دیں۔ انڈیا نے دریا کا پانی تقسیم کرنے سے متعلق ایک اہم معاہدہ بھی معطل کر دیا۔

انڈین حملوں نے کشیدگی کو عسکری تصادم میں تبدیل کر دیا، جب دونوں جانب سے کشمیر کے شورش زدہ علاقے میں لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی فوجی تنصیبات پر میزائل اور ڈرون حملے بھی کیے گئے۔

انڈین فوج نے دعویٰ کیا کہ رات بھر جاری رہنے والے فضائی حملوں میں تقریباً 100 عسکریت پسند مارے گئے، اور بعد کی کارروائیوں میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کے 35 سے 40 اہلکار جان سے گئے۔

پاکستانی فوج نے منگل کو کہا کہ انڈیا کے ساتھ جھڑپ میں 11 فوجی اور 40 شہری جان سے گئے۔ گذشتہ ہفتے ایک پاکستانی وزیر نے دعویٰ کیا کہ ان کی مسلح افواج نے 40 سے 50 انڈین فوجی مارے۔

انڈیا اور پاکستان دونوں نے دعویٰ کیا کہ فضائی جھڑپ میں ایک دوسرے کے لڑاکا طیارے مار گرائے ایک ایسی فضائی لڑائی میں جس میں مبینہ طور پر 125 سے زائد طیاروں نے حصہ لیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی فضائی لڑائی قرار دی جا رہی ہے۔

دونوں ممالک نے مجموعی لڑائی میں فتح کا دعویٰ کیا، جو اس وقت بند ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کی دوپہر جنگ بندی کا اعلان کیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان