پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی نگرانی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دینے سے متعلق انڈیا کے وزیر دفاع کے بیان کی اسلام آباد نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے بیانات نہ صرف غیر ذمہ دارنہ ہیں بلکہ یہ انڈیا کی ’مایوسی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو سری نگر میں فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی نگرانی میں دیا جانا چاہیے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے انڈیا کے وزیر دفاع کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’غیر ذمہ دارانہ‘ ریمارکس حال ہی میں انڈین جارحیت کے خلاف پاکستان کے ’موثر دفاع‘ کے بعد نئی دہلی کے ’عدم تحفظ اور مایوسی‘ کو ظاہر کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی روایتی دفاعی صلاحیتیں انڈیا کو روکنے کے لیے کافی ہیں اور ’ اس کے لیے انڈین کی جانب سے خود ساختہ ایٹمی بلیک میلنگ کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
دفتر خارجہ نے کہا کہ انڈین وزیرِ دفاع کا بیان اس بات کا بھی عکاس ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مینڈیٹ اور ذمہ داریوں سے یکسر لاعلم ہیں۔
خبر رساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق راج ناتھ نے کہا کہ ’میں دنیا کے لیے یہ سوال اٹھانا چاہتا تھا: کیا جوہری ہتھیار ایک بدمعاش اور غیر ذمہ دار قوم کے ہاتھ میں محفوظ ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ ’میرا ماننا ہے کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کی نگرانی میں لایا جانا چاہیے۔‘
راج ناتھ سنگھ کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب چند روز قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اب پاکستان کی ’جوہری بلیک میلنگ‘ کو برداشت نہیں کرے گا۔
انڈیا کے وزیر دفاع کے بیان کے جواب میں دفتر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو انڈیا کے جوہری اور تابکار مواد کی بار بار چوری اور ان کی غیر قانونی سمگلنگ کے واقعات کی تحقیقات کرنی چاہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق ’اگر کسی بات پر تشویش ہونی چاہیے تو وہ انڈین میں ایٹمی اور تابکار مواد کی مسلسل چوری اور غیر قانونی سمگلنگ کے واقعات ہیں جو آئی اے ای اے اور عالمی برادری کے لیے باعث تشویش ہونے چاہئیں۔ صرف گذشتہ سال انڈین کے شہر دھرادون میں پانچ افراد کو ایک تابکار آلہ کے ساتھ پکڑا گیا جو مبینہ طور پر بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر سے چوری ہوا تھا۔
’اس کے بعد انڈیا میں ایک اور گروہ کو انتہائی خطرناک اور مہنگے تابکار مادہ کیلی فورنیم کے ساتھ پکڑا گیا جس کی مالیت تقریباً 10 کروڑ ڈالر بتائی گئی۔ کیلی فورنیم کی چوری کے تین واقعات 2021 میں بھی رپورٹ ہوئے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ ’یہ بار بار کے واقعات نئی دہلی کی جانب سے ایٹمی اور تابکار مواد کی حفاظت اور سلامتی کے لیے کیے گئے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ انڈین کے اندر حساس اور دوہری استعمال والے مواد کی ایک بلیک مارکیٹ موجود ہے۔
’پاکستان ان واقعات کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے اور انڈٰیا پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی اثاثوں اور تنصیبات کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنائے۔‘
پاکستان، انڈیا لڑائی اور سیز فائر
انڈین کے زیرانتظام کشمیر میں سیاحتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو حملے میں کم از کم 26 افراد کی اموات کے بعد انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا لیکن پاکستان کی اس کی مسلسل تردید کرتے ہوئے اس واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کا کہتا رہا۔
تاہم انڈیا نے بالآخر 6 اور 7 مئی کو پاکستان میں متعدد اہداف کا نشانہ بنایا جس کے بعد 4 روز تک لڑائی جاری رہی جس میں مسلسل شدت آتی رہی۔ البتہ امریکہ، سعودی عرب اور بعض دیگر دوستوں ممالک کی کوششوں سے دونوں ملکوں کے درمیان 10 مئی کو سیز فائر پر اتفاق کیا جس پر تاحال عمل درآمد جاری ہے۔
تاہم دونوں جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔