پاکستان کے میزائلوں نے انڈیا کے دفاعی نظام کو کیسے شکست دی؟

ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس کسی بھی سیٹلائٹ کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے ایسے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستانی فوجی 23 مارچ، 2018 کو اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی فوجی پریڈ کے دوران ایک گاڑی پر سوار ہیں جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل شاہین II لے جا رہی ہے (اے ایف پی)

آپریشن بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار اب سیز فائر میں بدل چکا ہے لیکن اس کی بازگشت مسلسل سنائی دے رہی ہے۔

ماہرین حرب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنے حریف پر برتری ثابت کر دی ہے۔ اس برتری کا ایک اظہار اگرچہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کے جنگی طیارے تباہ کر کے دے دیا گیا تھا مگر اس کا حتمی فیصلہ اس وقت ہوا جب پاکستان نے انڈیا پر میزائلوں کی بارش کر دی، جن کی  تاب نہ لا کر انڈیا   نے جنگ بندی کے لیے امریکہ سے رجوع کر لیا ۔

پاکستان کا میزائل پروگرام کیا ہے اور ہم اس کے بارے میں اب تک کیا جانتے ہیں؟

اس حوالے سے  حال ہی میں ایک کتاب ’Sabre Rattling in Space: A South Asian Perspective‘  کے نام سے سنگاپور کے معروف پبلشر سپرنگر نے شائع کی ہے۔

کتاب کے مصنفین میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سٹریٹجک سٹڈیز کے شعبے کے احمد خان اور امریکہ کے خلائی سائنس کے ماہر Eligar Sadeh  ہیں۔

کتاب میں ایک باب امریکہ، چین، روس، انڈیا اور پاکستان کے میزائل پروگراموں کا جائزہ لیتا ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام کیوں شروع کیا گیا اور اس کی انڈیا کے مقابلے میں خصوصیت کیا ہے؟

پاکستان کا میزائل پروگرام اس کے ایٹمی پروگرام سے جڑا ہوا ہے کیونکہ جب آپ ایٹمی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں تو پھر اگلا مرحلہ اس کے ڈیلوری سسٹم کا ہوتا ہے یعنی ایسے میزائل تیار کیے جائیں جو ایٹمی وار ہیڈ کو کم از کم 60 کلو میٹر سے لے کر 2750 کلومیٹر تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

پاکستان نے 80 کی دہائی میں ہی اس جانب پیش رفت شروع کر دی تھی۔

آنے والے سالوں میں  پاکستان نے ایسے میزائل بنا لیے جو مختصر فاصلے سے لے کر درمیانی فاصلے تک مار کر سکتے تھے جن میں بیلسٹک میزائل شاہین تھری بھی شامل تھے۔

ان میں درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل بھی ہیں جو  مخصوص گاڑیوں کے ذریعے کہیں سے بھی داغے جا سکتے ہیں۔

ڈونلڈ رمز فیلڈ جو دو بار امریکہ کے سیکریٹری دفاع رہے انہوں نے پاکستان کے میزائل پروگرام کے بارے میں 1998 میں امریکی کانگریس کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا کہ ’پاکستان کا میزائل پروگرام شمالی کوریا سے بہت جدید نوعیت کا ہے اور اس نے 2500 کلومیٹر تک مار کرنے والے درمیانی فاصلے کے بیلسٹک میزائل بنا رکھے ہیں جس کے بعد اب پاکستان طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنانے کے بھی بہت قریب ہے۔‘

رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ یہ پروگرام انڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس سے امریکہ کو براہ راست کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

انڈیا کو میزائل پروگرام کے لیے شمالی کوریا، ایران اور روس کی جبکہ پاکستان کو شمالی کوریا اور چین کی مدد حاصل ہے۔

یہ ایک مفروضہ ہے کہ شمالی کوریا نے 1998 میں اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کی تھی مگر اس کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انڈیا اور شمالی کوریا اس سلسلے میں ایک دوسرے سے تعاون کیوں کر رہے ہیں امریکہ کو یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ بھی کہ پاکستان 2700 کلومیٹر تک مار کرنے والے شاہین تھری میزائل کیوں بنا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق فی الحال پاکستان کی دلچسپی بین البراعظمی میزائل بنانے میں نہیں ہے اور اس کے جنوبی ایشیا کے باہر کوئی عزائم نہیں ہیں۔  

پاکستان نے بابر تھری کروز میزائل جس کی رینج 450 کلومیٹر ہے، سمندر سے لانچ کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی ہے۔

پاکستان کے میزائل پروگرام  اور ایٹمی وار ہیڈز کے بارے میں نیسکام اور پاکستان اٹامک کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا سے بہت جدید اور آگے ہے۔‘

کیا پاکستان کے پاس ایس ایل وی کی صلاحیت بھی ہے؟

 حالیہ پاک انڈیا جنگ سے پہلے ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ انڈیا سیٹلائٹ  ٹیکنالوجی میں پاکستان سے بہت آگے ہے مگر آپریشن بنیان مرصوص کے دوران پاکستان نے جس طرح انڈیا میں کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور جس طرح اس نے انڈیا کے طیاروں کو تباہ کیا ہے اس کے بعد اس میدان میں بھی انڈیای برتری ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے کیونکہ میزائل یا جہاز جب اپنے ہدف کو نشانہ بناتے ہیں تو اس میں زمینی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

میزائل ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہرین کا ماننا ہے کہ جب آپ بیلسٹک میزائل بنانے کے اہل ہو جاتے ہیں تو آپ سیٹلائٹ لانچ وہیکل سسٹم بھی بنانے کے اہل ہو جاتے ہیں کیونکہ بیلسٹک میزائل کی ریورس انجینئرنگ کے ذریعے ہی ایس ایل وی بنائی جا سکتی ہے اور دوسری جانب جن ممالک کے پاس ایس ایل وی کی صلاحیت ہے وہ بیلسٹک میزائل بھی بنانے پر قدرت رکھتے ہیں۔

 پاکستان کے سیٹلائٹ لانچ ویکل پروگرام کا اس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں یا  کیا پاکستان نے اینٹی سیٹلاٹ میزائل بھی بنا لیا ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو اس کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق پاکستان کے پاس کسی بھی سیٹلائٹ کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے ایسے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت تک 14 ممالک ایسے ہیں جو کہ سیٹلائٹ لانچ وہیکل کی صلاحیت کے حامل ہیں اور وہ اب بیلسٹک میزائل بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ حتف ون میزائل ایک ایسا راکٹ ہے جس کو سپارکو کی مدد سے 1980 میں ہی بیلسٹک میزائل میں بدل لیا گیا تھا۔

شاہین بھی درمیانی فاصلے تک مار کرنے ولا بیلسٹک میزائل ہے جسے ایس ایل وی کے ذریعے بنایا گیا ہے تاہم پاکستان نے حال ہی میں شاہین تھری کا تجربہ  کیا ہے جو کہ 2700  کلومیٹر سے زیادہ دور ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

تاہم حتف ون، ٹو، تھری، فور اور فائیو میں مختلف تکنیک استعمال کی گئی ہے۔

حال ہی میں پاکستان نے ایک ساتھ کئی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ابابیل میزائل کا بھی تجربہ کیا ہے جو کہ 2000 کلومیٹر تک ایک ساتھ کئی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ صلاحیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس سیٹلائٹ مدار میں بھیجنے کی صلاحیت بھی ہے اور اس نے اس میدان میں انڈیا کی برتری کو بھی چیلنج کر دیا ہے۔

 چینی نیوی گیشن سسٹم پاکستان کے میزائل پروگرام کی اصل طاقت ہے

حالیہ پاک انڈیا جنگ میں پاکستان کے میزائلوں اور طیاروں کی برتری کے پیچھے ایک بڑی وجہ اس کا وہ نیوی گیشن سسٹم بھی ہے جو چین نے اسے دے رکھا ہے۔

دراصل پاکستان کو شروع ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ امریکی نیوی گیشن کے ہوتے ہوئے کامیاب دفاع کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

امریکہ کسی بھی وقت اس سسٹم کو جام کر دے یا روک دے تو اس وقت پاکستان کے میزائلوں کی مار کرنے کی صلاحیت بے معنی ہو جائے گی۔

اسی وجہ سے پاکستان نے چین کی مدد سے اپنے میزائل پروگرام کو صنعت کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔

جس کے لیے چین نے پاکستان کی بھر پور مدد کی ہے۔ سی پیک کی سیکورٹی کے لیے پاکستان نے چین کی مدد سے ایسے سیٹلائٹ خلا میں بھیجے ہیں جس کے بعد پاکستانی سائنسدانوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے انڈیا کے ایک انچ انچ کا جائزہ لینے کی صلاحیت مل چکی ہے۔

2013 میں چینی وزیراعظم  لی کی کیانگ کے دورہ پاکستان کے موقعے پر  دونوں ممالک کے مابین  ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس کی رو سے چین نے  پاکستان میں ایسے پانچ سٹیشن بنانے تھے جن کے بعد پاکستان کو نیوی گیشن کی اپنی سہولت میسر آ جانی تھی اور وہ اس سلسلے میں امریکی نیوی گیشن کا محتاج نہیں ہو گا۔

اب یہ سسٹم مکمل آپریشنل ہو چکا ہے جس کو سول اور  فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جنرل قدوائی جو کہ پاکستان کے ایس پی ڈی کے سابق سربراہ اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر ہیں انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کو کافی عرصہ پہلے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کے بیلسٹک اور کروز میزائل جی پی ایس بیسڈ ہیں کیونکہ ہمیں خدشہ ہے کہ انڈیا سے کسی بھی تنازعے کے دوران امریکہ پاکستان کی رسائی جی پی ایس سسٹم پر بند کر سکتا ہے جس سے اس کے میزائلوں کو ہدف پر پہنچنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے اس لیے  پاکستان کے میزائلوں  کا دارومدار امریکی جی پی ایس نظام پر نہیں ہے بلکہ اس کے متبادل چینی نظام بی ڈی ایس پر ہے۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ رعد اور بابر میزائل جن کو پہلے جی پی ایس کی ضرورت تھی وہ بھی اب چینی نیوی گیشن  نظام پر منتقل ہو چکے ہیں۔

کروز میزائل کی اپنے ہدف کو انچ بائی انچ  نشانہ بنانے کی صلاحیت بیلسٹک میزائلوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے کروز میزائلوں کو زیادہ جدید نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔

چین کا بی ڈی ایس نظام پورے انڈیا کی کوریج کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اس کے نظام کو جام یا ہائی جیک نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان کی پوری توجہ اپنے خلائی پروگرام کو سول کے ساتھ ساتھ  فوجی مقاصد کے لیے بروئے کار لانے میں  ہے تاکہ وہ اپنی ایٹمی کمانڈ کو 100 فیصد قابل بھروسہ طریقے سے استعمال کر سکے۔

2011 میں پاکستان کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی نے ویژن 2047 کا اعلان کیا تھا  جس کے ذریعے پاکستان ایس ایل وی بھی لانچ کرے گا اور خلا میں انڈیا کے ساتھ بھرپور مقابلہ کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ