14 اگست آتے ہی بچین جی اٹھتا ہے، کاغذ کی جھنڈیوں سے گلی محلے ہرے بھرے ہو جاتے، صبح سکول کے لیے نکلتے تو ہاتھ میں چھوٹا سا جھنڈا اور سینے پر بیج، آنکھوں میں عجیب خوشی ہوتی۔ سکول کا آنگن ملی نغموں اور دل جذبات سے بھر جاتا۔ ’جیوے، جیوے پاکستان‘ اور ’یہ وطن تمہارا ہے،‘ پھر ’سوہنی دھرتی۔‘ یہ سب نغمے حافظے سے چپک کر رہ گئے۔
بچپن، زندگی کا سنہرہ دروازہ جسے پار کرتے ہی ذہن جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔ جون کی تڑپ کا بھی اپنا مزا ہے لیکن بچپن کا کوئی جواب نہیں جب خوشی کے لیے بڑے واقعات یا مہنگی چیزیں ضروری نہیں ہوتیں۔ زندگی کی آزادی اور بچپن کی بے فکری کا ماحول دل دوبارہ کبھی محسوس نہیں کر سکا۔
تب نہ ملک کے مسائل کا بوجھ کندھوں پر تھا، نہ خبروں کا شور دماغ میں، بس ایک سادہ سا یقین تھا کہ ہم سب ایک ہیں اور ہمارا پاکستان سب سے خوبصورت ہے۔ یہی سادگی اور بےغرض خوشی تلاش کرنے کے لیے نئے نغمے سننے بیٹھا تو مایوسی ہوئی۔ جو شور شرابہ زندگی میں ہے وہی نغموں میں سنائی دیتا ہے۔ زندگی کی بوریت بھری روٹین قطار در قطار نغموں میں الفاظ کی صورت نظر آتی ہے۔
چند روز قبل ریلیز ہونے والے ایک ترانے کے بول کچھ اس طرح کے ہیں۔ خون کے آخری قطرے تک تیرا قرض چکائیں گے، جو میلی آنکھ سے دیکھے تجھے اس کی آنکھ پھوڑ دیں گے اور جو ہاتھ تیری طرف بڑھا وہ توڑ دیں گے۔ سبحان اللہ۔
چند برس پہلے آنے والے ایک نغمے کے الفاظ ہیں، ’دل سے پاکستان ہیں ہم، یک جان ہیں ہم، نس نس میں تیرا عشق بہے، جان کا خراج دیں گے، سنو سنو یک جان ہیں ہم۔‘ ارے کیا ہے یہ سب؟
بات محض ناسٹلجیا کی نہیں ڈھنگ کی بھی ہے۔ پرانے نغموں میں ایک نرمی، ایک لوچ، ایک جذباتی فضا تھی۔ ایسی فضا جو براہ راست زندگی سے پھوٹتی اور دل میں نئے پھول کھلاتی۔ اب ایک ہی طرح کا شور ہے۔ موسیقی میں ڈرموں کی برسات، بول انتہائی روایتی اور گھسے پٹے۔
’بڑا دشمن بنا پھرتا ہے‘ اور ’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘ اپنے الفاظ اور ٹیون میں انتہائی خوبصورت اور اثر انگیز تھے۔ سیدھے سادہ بول، میٹھی سی دھن اور خواب آور آواز۔ سنتے ہی آپ جذبات کی رو میں بہنے لگتے ہیں۔
اس کے بعد والے دس بارہ گیت سنے، مجال ہے کہیں دل نرم پڑا ہو یا گرما گرم جذبات نے انگڑائی لی ہو۔ ایک احساس ہوتا ہے قومی جذبے کا، وہ نہ قوم میں نظر آتا ہے نہ نغموں میں۔
ساتھ اور 70 کی دہائی کے نغمے صدا بہار اس لیے نہیں کہ وہ پرانے تھے تو اچھے لگتے ہیں۔ تب 20ویں نہیں تو سینکڑوں نغمے ضرور مارکیٹ میں آئے تھے۔ ہمیں کتنے یاد ہیں؟ دس بارہ؟
کس نے بھٹو کی ویڈیو نہیں دیکھی ہو گی جس میں وہ بچوں کے ساتھ ’سوہنی دھرتی‘ گا رہے ہیں۔ ضیا الحق آئے تو ان کی تقریر کے بعد یہی نغمہ بجتا۔ مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد تقریر کی تو اس کے بعد یہی گیت پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔ حکمران آتے جاتے رہے، نسلیں تبدیل ہوئیں لیکن ’سونی دھرتی‘ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ماؤں کی دعا پوری ہوئی‘ اور ’میرا پیغام پاکستان‘ آج بھی مقبول ترین ملی نغمے ہیں۔ یہ 2025 میں جاری ہونے والے گیتوں سے زیادہ نئے اور تازہ ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ ان کی لاجواب شاعری اور بے مثال دھنیں۔
ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ محض بڑھکیں نہیں، حقیقی جذبہ ہے۔ دھرتی کی بات ہے، لوگوں کی روزہ مرہ زندگی سے جڑی ہوئی باتیں ہیں جنہیں ہم آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ دوسروں پر چیخنے چنگھاڑنے کے بجائے اپنی مٹی کی خوبصورتی کی بات کرتے ہیں۔
دھنیں سادہ اور ندی کی طرح رواں ہیں۔ ساز کم ہیں جن سے ایک ٹھہراؤ کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے زندگی کسی دور دراز کے دیہی ڈیرے پر پیپل کی چھاؤں میں سستانے کا نام ہو۔
اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ یوٹیوب پر اگست کے مہینے میں ایک ہی دن میں پانچ چھ نئے ملی نغمے ریلیز ہو جاتے ہیں۔ کیمرہ ڈرون شاٹس لیتا ہے، نوجوان لڑکے لڑکیاں ہاتھ میں جھنڈے تھامے سٹیج پر یا کسی خوبصورت لوکیشن پر گاتے ہیں۔ لائٹنگ، سلو موشن شاٹس، تیز چمکدار ایفیکٹس الگ۔ اتنے اہتمام کے باوجود بات نہیں بن پاتی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گلوکار نے بس ایک کمپنی پراجیکٹ مکمل کیا ہے۔ یہ ملی نغمے کم اور موٹر سائیکل سلنسر کے اشتہار زیادہ لگتے ہیں۔
کل یہاں لاہور ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میں ایک کیفے میں بیٹھا برگر کھا رہا تھا۔ ایک طرف سے کسی نوجوان کی آواز گونجی، ’یہ وطن تمہارا ہے۔‘ لڑکے کے بال لمبے، گارگو جینز اور اوور سائز شرٹ۔ سیب جیسے سرخ رخسار اور خربوز کی کاش جیسے سرخ کٹار ہونٹ۔ ہاتھ میں گٹار لیے وہ سچ مچ کا گلوکار لگ رہا تھا۔
ذرا دیر کو کیفے کا نظام پرسکون ہو گیا۔ لوگ کی زبانیں بند اور سماعتیں بیدار ہو گئیں۔
تھوڑی ہی دیر میں باہر بیٹھا ایک بزرگ فقیر اندر داخل ہوا، شاید 70 کے قریب عمر ہو گی۔ داڑھی بڑھی ہوئی لیکن مونچھیں تراشی ہوئیں، بزرگ انتہائی اعتماد کے ساتھ لڑکے کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور دھیمی آواز میں ساتھ گانے لگے۔
دو آوازوں کے ساتھ چند اور آوازیں شامل ہوئیں اور پورا کیفے گا رہا تھا۔ یہی ملی نغموں کا کمال ہے، ایک نسل دوسری نسل کو وہ جذبہ منتقل کرے جو شاید الفاظ نہیں سہار سکتے۔