جب ہم چھوٹے تھے تو عید تہوار اپنے دادا دادی کے ساتھ کراچی میں منایا کرتے تھے۔ اسلام آباد، مری، بھوربن اور کراچی کے درمیان میرے بچپن کی حسین یادیں ہیں۔ پر ان تمام شہروں میں یوم آزادی فرق طریقے سے منایا جاتا تھا۔ شاید جغرافیائی ماحول میں تبدیلی کی وجہ سے مجھے یہ فرق محسوس ہوا لیکن جذبہ سب کا قابل دید تھا۔
کراچی میں دادی اماں آٹے کی لئی بناتی تھیں۔ اس میں سب بچے جھنڈیاں پرو دیتے تھے۔ دادا ابو اپنے تمام نواسے نواسیوں کو جھنڈے، جھںڈے، بیج، پھلجڑیاں، چراغ، موم بتیاں اور ٹوپیاں خرید کردیتے تھے۔ سارا خاندان ایک ساتھ جشن آزادی مناتا تھا اور میرے مرحوم ماموں جو بہت ہردلعزیز تھے وہ تو ساری گلی کو ساتھ ملا لیتے تھے۔
ساری گلی جھنڈیوں اور کاغذی پھولوں کی لڑیوں سے سج جاتی تھی اور شام میں بچوں کے لیے کوئز اور ملی نغموں کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ جس کے تمام بڑے فںڈ دیتے تھے۔ سب بچوں میں تحائف تقسیم کئے جاتے تھے۔ پھر جب ہمارے والد کام کے سلسلے میں بھوربن آگئے تو وہاں اگست میں بھی شدید ٹھنڈ ہوتی تھی اور مری میں ہمارے سکول میں پرچموں کی بہار کے ساتھ ہم اسمبلی میں سردی کی وجہ سے بمشکل کھڑے ہوتے تھے۔ بس ایک دو نغموں کے بعد تقریب ختم ہوجاتی تھی۔ ہم جھنڈے جھنڈیاں لگاتے تھے وہ تیز ہوا اڑا لے جاتی تھی۔ ہم بچے بہت دکھی ہو جاتے تھے۔
میرے والدین نے اسلام آباد جیسے جدید شہر میں سکونت اختیار کی اور کوشش کی کہ تمام دینی اور ملکی روایت کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ پر اسلام آباد 90 کی دہائی میں بہت ویران ہوتا تھا۔
مجھے سکول میں لب آتی ہے دعا بن کر تمنا میری، جو کہ علامہ اقبال کا کلام ہے اس پر ٹیبلو میں پھول بننا تھا۔ میری بہن نے ملی نغمے میں گرین سیش پہننی تھی اور سب سے بڑی بہن کو کرن والا سفید ڈوپٹہ چاہیے تھا۔ میری امی کو اسلام آباد میں کچھ نہیں مل رہا تھا وہ اپنی ساسں کو فون کر کے بہت روئیں کہ یہ کیسا شہر ہے۔ جہاں کچھ دستیاب نہیں ہے۔ میری دادی نے ہمیں یہ تمام اشیا بعذریہ ڈاک بھیج دیں اور کچھ عرصے بعد وہ میری امی کی دلجوئی کے لیے اسلام آباد رہنے آگئیں۔ جب دادا ابو دادی اماں دنیا رخصت ہوئے تو وہ رونقیں بھی ساتھ چلیں گی۔ پھر بھی ہمارے والدین، چچا، پھپھو اور مرحوم ماموں نے کوشش کی کہ ہم ایک روایتی ماحول میں پروان چڑھیں۔
محترمہ بے نظیر کے دوسرے دور حکومت کا آخری سال تھا تو انہوں نے بچوں کے لیے بہت سی تقریبات کا انعقاد کیا۔ ہم سب بچے بھی سکول یونیفارم، گرین ٹوپیاں اور پاکستان کے جھنڈے والا بیج لگا کر پہنچ گئے۔ ساتھ میں امی کی طرف سے دیا گیا لنچ باکس اور واٹر بوٹل مجھے تو لگ رہا تھا ہم پکنک میں ہیں۔ وہ بہت پرامن دور تھا وزیراعظم کے ساتھ ایک گارڈ ہوا کرتا تھا اور کوئی بھی ان سے مل سکتا تھا۔ ہم بچوں کی بھی خوب تواضع کی گئی۔ تو ہم سب کو بہت خوش ہوئے خوب کھیلا نغمے گائے۔ تھک ہار کر سکول بس میں واپس گھروں کو آئے تو ہاتھوں میں جشن آزادی پر ملنے والے تحائف بھی تھے۔
اس کے بعد پھر کبھی ایسا دور نہیں دیکھا۔ پرویز مشرف کے دور میں ایسی تقریبات بند ہو گئیں اور ہم بچے بہت سال مسلح افواج کی پریڈ دیکھنے سے بھی محروم رہے۔ میں ملی نغموں اور تقاریر کے مقابلوں میں جاتی تھی۔ میرے پاس ملی نغموں کی کتاب ہوتی تھی اور میری بہن نے ریڈیو پاکستان سے مجھے کیسٹ میں بہت سے معروف گلوکاروں کے نغمے ریکارڈ بھی کرادئے۔ میں نے نیرہ نور کے نغمے گائے اور خوب داد و تحیسن سمیٹی۔ بہت سے انٹرسکول مقابلے جیتے۔ جب کالج میں گئی تو سارا فوکس تقاریر اور مضمون نویسی کی طرف کر دیا۔
اپنے استاتذہ سے لکھنا بولنا سیکھا۔ میں اور بہنیں تب بھی بہت جوش خروش سے جشن آزادی منایا کرتے تھے۔ گھر کی سجاوٹ، چراغاں اور رات کو اسلام آباد میں روشنیاں دیکھنا۔ امی ابو کے ساتھ کھانا کھا کر گھر واپسی ہوتی تھی۔ اب وہ اپنے گھروں کی ہوگئی ہیں اور میں بھی ارشد کے بعد خاص اہتمام کرنے قاصر ہوں۔ بس ہم دو جھنڈے لگا دیتے ہیں اور مغرب کے وقت اتار لیتے ہیں۔
ان کی شہادت سے پہلے تو میں جشن آزادی کو بھی عید کی طرح مناتی تھی۔ سفید ہرا لباس، گھر جھنڈے جھنڈیوں سے مزین اور رات کو چراغاں ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ہم دونوں مل جیٹ فلائی پاسٹ اور شہر کی خوبصورتی کو کیمرے میں محفوظ کرتے تھے۔ میں شاید بھرپور خوشیاں منانے سے قاصر ہوں لیکن نئی نسل کو یہ ہی کہتی ہوں کہ خوش رہو شاد رہو اور اس آزاد وطن کی قدر کرو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پر اب جشن آزادی کی روایات بہت بدل گئی ہیں۔ اب آٹے کی لئی سے جھنڈیاں نہیں لگائی جاتیں۔ بس ریڈی میڈ خرید کر لگا دی جاتی ہیں۔ بچے یہ کام بھی ملازمین سے کروالیتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایک جھںڈا لگا کر فرض پورا کرلیتے ہیں اور کچھ سوشل میڈیا سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ ایک ٹویٹ کر دیا، ایک پوسٹ لگا دی بس ہو گیا جشن آزادی کا فرض پورا۔ کچھ زیادہ کوشش کی تو سفید یا ہرا لباس پہن لیتے ہیں۔
نئی نسل ہماری طرح مضمون نویسی، تقاریر مباحثے مذاکرے میں دلچسی نہیں لیتی۔ ان کو ملی نغمے بھی یاد نہیں نا ہی وہ پاکستان کی تاریخ سے کچھ زیادہ واقف ہیں۔ اس میں ہماری ریاست اور میڈیا بھی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ان دنوں کو ویسی اہمیت نہیں دی جیسے دینی چاہیے۔
گذشتہ دنوں سکول کے بچوں کو کشمیر کا دن منانے کے لیے ڈی چوک بلایا گیا۔ زیادہ تر بچے یوم کشمیر کو لے کر کچھ خاص نہیں جانتے تھے۔ پر انہیں یہ پتہ تھا کہ عمران خان کو پابند سلاسل ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ یہ بات ان کو کیوں معلوم تھی کیونکہ یہ بات ہر وقت میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیربحث رہتی ہے۔ پر اکابرین پاکستان، شہدائے پاکستان اور غازیوں کا کوئی تذکرہ ہی نہیں۔ حکمرانوں نے تو اس بار بیشتر اشتہاروں میں سے قائد اعظم، علامہ اقبال اور فاطمہ جناح کو بھی فراموش کردیا ہے۔
نئی نسل کی بڑی تعداد علامہ اقبال کو پڑھنے سے قاصر ہے۔ انہیں اردو اور فارسی پر عبور نہیں۔ انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے مشہور مقدمات کا معلوم نہیں۔ انہیں ان خواتین و مردوں کے بارے میں نہیں پتہ جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ کیونکہ انہیں بتایا ہی نہیں گیا۔ انہیں کشمیر فلسطین اور تحریک پاکستان پڑھایا نہیں گیا۔ بس انگریزی پڑھنے بولنے کی دوڑ میں لگا کر ان کو دیگر علوم سے دورکردیا گیا۔
اب بچے ایک باجہ اور تھوڑے پٹاخے لے کر جشن آزادی منالیتے ہیں۔ نوجوان موٹرسائیکل کا سیلنسر نکال کر سڑکوں پر نکل جاتے۔ اشرافیہ اپنے لیے تقریبات سجا لیتے ہیں جس میں عوام کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ مجھے افسوس ہوتا جب میں یہ دیکھتی ہو کہ چودہ اگست پر جب اکابرین تحریک انصاف کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ ان کے حوالے سے کوئی تصویری نمائش نہیں ہوتی، تحریک پاکستان کے حوالے سے دستاویزی فلمز نہیں چلائی جاتی۔ بچوں کے لیے ٹرپ فنکشن پلان نہیں کیے جاتے۔ آل پاکستان تقریری، ملی نغموں، مضمون نویسی اور مصوری کے مقابلے نہیں ہوتے۔
حکومت ٹک ٹاک کی دلدادہ ہے تحریک پاکستان کے حوالے سے وہاں معلومات اپ لوڈ کی جاسکتی ہیں۔ پر حکومت کو اپنی خودنمائی سے فرصت نہیں۔ یہاں پر والدین اساتذہ کا فرض بنتا ہے۔ وہ بچوں کو پیار محبت سے روایتی جشن کی طرف لے کر آئیں۔ سب مل کر جھنڈا لگائیں۔ گھر کے آنگن میں ایک درخت لگائیں اور گھرکو جھنڈیوں سے سجائیں۔ اس دن وطن کی باتیں کریں ملی نغمے سنیں اور بچوں کو آسان لفظوں میں پاکستان کی تاریخ بتائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو اگلی نسل صرف باجوں اور بنا سیلنسر کی بائیک کی لیگسی فالو کرتے ہوئے اس جشن کو زحمت میں تبدیل کرکے منائے گی۔