پاکستانی فضائیہ اور میزائل پروگرام کے بانی پولینڈ کے تورووچ

ایئر کموڈور تورووچ نہ صرف پاکستانی فضائیہ کے اعلیٰ معیار مقرر کرنے کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، بلکہ انہیں پاکستان کے میزائل پروگرام اور خلائی پروگرام کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔

ولادی سلاف تورووچ کو پاکستان نے اعلیٰ فوجی اور شہری اعزازوں سے نوازا (پبلک ڈومین)

پاکستان ایئر فورس نے سات مئی کو ہونے والے انڈین حملے میں پانچ انڈین طیاروں کو نشانہ بنا کر ایک بار پھر اپنی پیشہ ورانہ مہارت ثابت کر دی ہے۔ پاک انڈیا جنگوں میں پاکستان ایئر فورس کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ پاکستان کیسے اپنے سے بڑی اور زیادہ وسائل رکھنے والی انڈین ایئرفورس پر اپنی برتری قائم رکھے ہوئے ہے؟

اس کی کئی جہتیں ہیں جن میں سب سے نمایاں اس کی تربیت کا بلند معیار ہے۔ پاکستان جب قائم ہوا تھا تو اس کے حصے میں کل 54 جہاز جبکہ انڈیا کے حصے میں 221 جہاز آئے تھے۔ گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق پاکستان کے پاس اس وقت کل 1434 طیارے، ہیلی کاپٹر اور تربیتی طیارے موجود ہیں جن کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان ایئر فورس دنیا کی ساتویں بڑی فضائی طاقت قرار پاتی ہے۔

پاکستان نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟ اس کے بانیوں میں جہاں ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر کموڈور ایف ایس حسین کا نام آتا ہے وہاں پر ایک پولش افسر ولادی سلاف تورووچ کا نام بھی آتا ہے جو اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف کے عہدے تک پہنچے۔ کرنل اعظم قادری اور گروپ کیپٹن محمد علی کی کتاب Sentinels in the Sky (A Saga of PAF`s Gallant Air Warriors) میں ان کے تفصیلی حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔

ایئر کموڈور تورووچ نہ صرف پاکستانی فضائیہ کے اعلیٰ معیار مقرر کرنے کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، بلکہ انہیں پاکستان کے میزائل پروگرام اور خلائی پروگرام کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی خدمات کے عوض پاکستان نے انہیں نشانِ پاکستان کے اعلیٰ اعزاز سے نوازا۔

ایئر کموڈور ولادی سلاف تورووچ کون تھے؟

ولاڈیسلا جوزف مارین تورووچ   23 اپریل 1908 کو روسی سائبیریا کے شہر زوبر میں پید اہوئے۔ اس وقت پولینڈ کے مختلف حصے روس، ہنگری اور جرمنی کے قبضے میں تھے۔ ان کے والد ریلوے میں ملازم تھے۔ روس میں بدامنی کے دوران ان کا خاندان ہجرت کر کے پولینڈ آ گیا۔

تورووچ کو بچپن سے ہی جہاز اڑانے کا شوق تھا، جس کے لیے انہوں نے وارسا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لے لیا جہاں سے پہلے انہوں نے ایرو ناٹیکل انجینیئرنگ میں گریجویشن اور بعد ازاں 1926 میں ڈاکٹریٹ کر لی۔ جس کے بعد انہوں نے پولش ایرو کلب کی بنیاد رکھی۔ 1927 میں ایسٹرو ڈائنامکس میں ماسٹر کرنے کے بعد انہوں نے پولش ایئر فورس میں بحیثیت ایرو ناٹیکل انجینیئر اور پائلٹ کے شمولیت اختیار کر لی۔ بعد میں 1930 میں رائل ایئر فورس برطانیہ کا حصہ بن گئے جس میں پولینڈ کے ریزرو پائلٹس کے لیے الگ نظام موجود تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے وقت جب وہ پولینڈ کی ایئر فورس کا حصہ تھے انہیں حکم ہوا کہ وہ اپنے جہاز لے کر رومانیہ منتقل ہو جائیں جو اس وقت تک غیر جانبدار ملک تھا۔ رومانیہ میں انہیں نظر بند کر کے کیمپ میں قیدی بنا لیا گیا مگر ان کی منگیتر نے انہیں ایک کیمپ سے تلاش کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حراستی کیمپ سے رہائی کے بعد وہ فرانس پہنچے جہاں جنرل سکورسی کی کمانڈ میں رہے۔ اس دوران تورووچ نے اپنی منگیتر سے شادی کر لی۔ جب فرانس کو شکست ہوئی تو نو شادی شدہ جوڑا برطانیہ منتقل ہو گیا جہاں وہ ایک بار پھر برطانیہ کی رائل ایئر فورس کا حصہ بن گئے۔

تورووچ کی نظر کمزور ہو گئی تھی اس لیے انہیں فائٹر پائلٹ کے طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ وہ ٹرانسپورٹ جہازوں کے ٹیسٹ پائلٹ اور جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال کرنے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد چونکہ پولینڈ روسی بلاک کا بدستور حصہ تھا اس لیے بہت سے پائلٹ واپس پولینڈ نہیں گئے۔ تورووچ بھی برطانیہ میں جہاز بنانے والی ایک فیکٹری میں ملازم ہو گئے۔

 رائل پاکستان ایئر فورس میں شمولیت

آزادی کے بعد چونکہ بہت سے برطانوی پائلٹ واپس چلے گئے تھے اس لیے پاکستان ایئر فورس جو اس وقت رائل پاکستان ایئر فورس کہلاتی تھی اسے پائلٹوں کی کمی کا سامنا تھا۔ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اخبار میں ایک اشتہار دیا۔

تورووچ نے بھی درخواست دے دی اور انہیں منتخب کر لیا گیا اور وہ 1948 میں پاکستان آ گئے ان کے ساتھ پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 30 دیگر پائلٹس اور ٹیکنیشز بھی شامل تھے جہاں انہیں ٹیکنیکل ٹریننگ سیکشن میں تعینات کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی بیگم گلائیڈنگ انسٹرکٹر بن گئیں۔

1952 میں تورووچ کو ونگ کمانڈر کے عہدے پر ترقی دے کر سٹیشن کمانڈر چکلالہ راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ تورووچ کو پاکستان بہت پسند آیا جہاں اس نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ شکار اور برج جیسے مشاغل بھی اختیار کیے رکھے۔

ان کی اہلیہ زوفیہ کراچی امریکن سکول میں ریاضی کی استاد بن کر پڑھانے لگیں۔ پاکستان میں ان کا وسیع حلقۂ احباب بن گیا جس کے بعد 1961 میں انہوں نے پاکستانی شہریت حاصل کر لی۔ ان کے کل چار بچے تھے جن میں سے دو پاکستان میں پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی۔

1955 سے 1957 تک وہ دو سال کوہاٹ میں سٹیشن کمانڈر رہے۔ 1959 میں انہیں گروپ کیپٹن اور 1960 میں ایئر ہیڈ کوارٹر میں اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف مینٹی نینس تعینات کر دیا گیا۔

ایئر ہیڈ کوارٹر جب کراچی سے پشاور منتقل کیا گیا تو اس وقت تورووچ کے بچے کراچی میں پڑھ رہے تھے اس لیے تورووچ کے خاندان نے کراچی میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ تورووچ اکیلے پشاور منتقل ہو گئے۔ 1965 کی پاک انڈیا جنگ میں امریکہ نے طیاروں کے فاضل پرزوں کی فراہمی روک لی جس پر تورووچ نے ان کے متبادل مقامی مارکیٹ سے ہی تیار کروا لیے۔ جس پر انہیں تمغۂ پاکستان اور ستارۂ امتیاز ملٹری کے اعزازات دیے گئے۔

پاکستان کے میزائل پروگرام کے بھی بانی

تورووچ پاکستان ایئر فورس میں ایک کامیاب دور گزارنے کے بعد 1967 میں ریٹائر ہو گئے جس کے بعد انہیں قومی خلائی مرکز سپارکو کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر تعینات کر دیا گیا جہاں انہوں نے چیف سائنٹسٹ ایرو ناٹیکل انجینیئر کے طور پر بھی کام کیا۔

اس دور میں ڈاکٹر عبد السلام جنہیں نوبل انعام دیا جا چکا تھا وہ صدر ایوب سے ملے اور انہیں سپیس پروگرام کی اہمیت سے آگاہ کیا جس پر تورووچ اور ڈاکٹر عبد السلام امریکہ گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ کرایا جس کی رو سے امریکہ نے راکٹ ٹیکنالوجی میں پاکستانی سائنس دانوں کی رہنمائی کی۔

تورووچ نے سومیانی میں سیٹلائٹ لانچ کا نظام نصب کیا۔ یہ انہی کی جملہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان نے 1970 کی دہائی کے آخر میں راکٹ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر لی۔ اس کی وجہ سے انہیں پاکستان کے میزائل پروگرام کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

جب پولینڈ نے انہیں جاسوسی کی آفر کی

تورووچ نے ریٹائرمنٹ کے بعد جب سپارکو کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو اسی دور میں پاکستان کے میزائل اور ایٹمی پروگرام پر کام شروع ہوا تھا۔ اس دوران پولینڈ کی خفیہ ایجنسیوں نے پولینڈ میں ان کے رشتہ داروں کے ذریعے انہیں جاسوسی کی پیشکش کی مگر انہوں نے ٹھکرا دی۔ پولینڈ کی خفیہ دستاویزات جو بعد ازاں افشا ہوئیں ان میں لکھا ہوا ہے کہ پاکستان میں اہم عہدے پر تعینات اور پاکستان قوم کے لیے ہیرو کا درجہ رکھنے والے تورووچ ہمارا قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتے تھے مگر انہوں نے کسی بھی پیشکش کا جواب نہیں دیا۔

عمر کے آخری حصے میں تورووچ علیل ہو گئے تھے ان کی ایک پرانی چوٹ جو ریڑھ کی ہڈی میں انہیں زمانۂ طالب علمی میں لگی تھی وہ جاگ اٹھی تھی۔ 1970 میں سپارکو سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پولینڈ میں اپنے خاندان کے پاس پہلی بار گئے جہا ں وارسا میں مقیم وہ اپنی بہن سے ملے۔

انہوں نے وہاں اپنا علاج بھی کروایا لیکن ان کی صحت مزید بگڑنے لگی تو انہوں نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کر لیا وہ ویل چیئر کے محتاج ہو گئے تھے اور پھر چارپائی کے ساتھ لگ گئے۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

1980 میں کراچی میں اپنے ڈرائیور کے ہمراہ ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا انہیں ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہیں ہو سکے۔ انہیں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ مسیحی قبرستان کراچی میں دفنا دیا گیا۔ کراچی میں پولینڈ کے قونصل جنرل نے بھی ان کے تدفین میں شرکت کی۔

 تورووچ نے اپنے پسماندگان میں بیوہ کے ساتھ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑے۔ دو بیٹیوں کی شادیاں پاکستان میں ہی ہوئیں جبکہ ایک کی بنگالی سے ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا سپارکو میں بطور ایرو سپیس انجینیئر اور چیف سائنس دان کے طور پر کام کر رہا ہے۔

ان کی بیوہ زوفیہ کا انتقال 2012  میں ہوا جن کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارۂ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں اپلائیڈ میتھ میٹکس اور پارٹیکل فزکس کی استاد رہیں۔

2001 میں پی اے ایف میوزیم کراچی میں تورووچ کے اعزاز میں یادگاری تختی نصب کی گئی جبکہ سپارکو لاہور میں بھی ان کی یادگار بنائی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ