امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر کراچی کی عدالت میں سماعت ہوئی اور جج نے درخواست گزار کے وکیل سے مزید وضاحت طلب کی ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت غربی کے جج امیر الدین رانا نے منگل کو درخواست گزار سے وضاحت طلب کی کہ مقدمہ پاکستان کے قانون کے تحت کس بنیاد پر اور کس سیکشن کے تحت درج کیا جا سکتا ہے، جب کہ عدالت نے سرکاری وکیل کو بھی طلب کر کےمؤقف سنا ہے۔
سماعت کی تفصیل
درخواست گزار وکیل جعفر عباس جعفری نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکہ نے ایران پر حملہ کر کے جنیوا کنونشن اورعالمی امن کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، جس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا، بشمول پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔
وکیل نے کہا کہ اس حملے کے بعد بحری بیڑے کی خبروں سے کراچی میں بھی خوف کی فضا پیدا ہوئی اور شہری ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوئے۔
عدالت نے پوچھا کہ مقدمہ درج کرانے کی بنیاد کیا ہے؟ اور کس جرم کے تحت اسے پاکستانی قانون کے تحت لایا جاسکتا ہے؟
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت غربی کے جج امیر الدین رانا نے کہا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے کہ مقدمہ پاکستان کے قانون کے دائرے میں کیسے آتا ہے؟
وکیل جعفر عباس جعفری نے مؤقف اختیار کیا کہ امریکی صدر کے اقدام سے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں اور ہزاروں وکلا کو جسمانی، ذہنی اور مالی نقصان ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 171،177 اور 179 کے تحت مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے ڈاکس تھانے میں درخواست بھی دی تھی، کیونکہ امریکی قونصل خانہ اسی تھانے کی حدود میں واقع ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ وہ عدالت سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ پولیس کو سی آر پی سی کی دفعہ 154 کے تحت ان کا بیان قلمبند کرنے اور مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جیسے قتل کے مقدمے میں پہلے جرم اور مقام کا تعین کیا جاتا ہے، اسی طرح اس حملے کے بھی اثرات مختلف جگہوں پر ہوئے اور اس بنیاد پر پاکستان میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے استفسار کیا کہ مقدمہ کس قانونی دفعہ کے تحت درج ہو سکتا ہے، اور کیا پی پی سی کے تحت ایسا کوئی جرم موجود ہے جو اس حملے پر لاگو ہوتا ہو؟
عدالت نے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ اگر وہ مقدمہ درج کرانا چاہتے ہیں تو قانونی طور پر اس کی وضاحت کیوں نہیں کر رہے؟
وکیل نے اعتراف کیا کہ ان کی پاکستان پینل کوڈ پر پریکٹس محدود ہے اور اسی لیے وہ متعلقہ سیکشنز کی فوری وضاحت نہیں دے سکے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ اگر مقدمہ درج ہی نہیں ہوا تو سرکاری وکیل کیسے بات کرے؟
عدالت نے وکیل کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھایا کہ ان کی پریکٹس 66 ممالک میں ہے۔
جج نے کہا کہ اگر پی پی سی کی پریکٹس نہیں ہے تو عدالت کو مطمئن کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا تو انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ویانا کنونشن کے تحت کسی بھی ہیڈ آف سٹیٹ کو قانونی استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور اس کی موجودگی میں براہ راست مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت نے کہا کہ جذباتی بیانات کی بنیاد پر قانون حرکت میں نہیں آ سکتا اور صرف خوف یا جذبات کو بنیاد بنا کرمقدمہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔
درخواست گزار وکیل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا استثنیٰ ہے کہ کوئی سربراہ جرم کرے اور اس پرمقدمہ بھی نہ ہو۔
انہوں نے عدالت کو یہ بھی باور کرایا کہ ایران پر حملے کے نتیجے میں ایٹمی تنصیبات تباہ ہوتی تو عالمی سطح پر ایک بڑا المیہ ہو سکتا تھا۔
عدالت نے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ مقدمہ کے قابلِ سماعت ہونے سے متعلق مکمل قانونی دلائل اور متعلقہ دفعات کےساتھ وضاحت پیش کریں۔ عدالت نے سماعت کل ایک بجے تک ملتوی کر دی۔
پس منظر
یہ مقدمہ ابتدائی طور پر 30 جون 2025 کو وکیل جمشید علی خواجہ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر کے نہ صرف جنیواکنونشن بلکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی، جس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوا۔
درخواست گزارکے مطابق اس حملے کے نتیجے میں نہ صرف ایران بلکہ دیگر ممالک کے عوام، خاص طور پر مسلمانوں اور وکلاء کونقصان پہنچا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ کراچی پولیس کے اعلیٰ افسران کو شکایتیں دی گئیں، مگر نہ تو کوئی ایف آئی آر درجہوئی اور نہ ہی بیان ریکارڈ کیا گیا، جس پر عدالت سے رجوع کیا گیا۔ اب عدالت اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیاپاکستان کے قانونی دائرے میں اس نوعیت کا مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔