انڈیا، پاکستان جوہری تصادم خطرہ جس پر دنیا کو تشویش ہونی چاہیے

اب پورے برصغیر میں سب کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ انڈیا پاکستان پر حملہ کرے گا یا نہیں اور یہ تشویش ناک ہے کیوں کہ دونوں ممالک ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

 28 جولائی 2024 کو ایک انڈین فوجی کارگل سیکٹر پر پہرہ دیتے ہوئے (اے ایف پی)

سیاحت انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی شہ رگ ہے لیکن جب اس خطے کے ایک نہایت دلکش مقام پہلگام میں 26 معصوم سیاحوں کو دہشت گردوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تو خوف زدہ سیاحوں نے یہاں کے حسین پہاڑوں، سرسبز وادیوں اور جھیلوں کو خیرباد کر دیا۔

اب پورے برصغیر میں سب کی نظریں اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ انڈیا پاکستان پر حملہ کرے گا یا نہیں اور یہ تشویش ناک ہے کیوں کہ دونوں ممالک ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ لائن آف کنٹرول گذشتہ چھ راتوں سے گرم ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے اپنی افواج کو مضبوط کیا ہے کیونکہ (انڈیا کی طرف سے) فوجی حملہ اب کسی بھی وقت ممکن ہے۔‘

دوسری جانب 80 فیصد ہندو آبادی والے ملک کے قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی نے صرف حملہ آوروں ہی نہیں بلکہ ان کے ’سرپرستوں‘ سے بھی بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے جو پاکستان کی جانب اشارہ تھا۔ انڈیا کا دعویٰ ہے کہ حملے میں ملوث تین میں سے دو حملہ آور پاکستانی تھے جبکہ اسلام آباد نے اس واقعے سے کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کی ہے اور بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم انڈیا کے عوام شدید انتقامی جذبات میں مبتلا ہے۔ انڈیا کے ٹی وی چینلز پر قوم پرست اینکر اور مہمان جنگی جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ 2019 میں، جب پاکستان سے تعلق رکھنے والی تنظیم جیش محمد کے مبینہ خودکش حملہ آور نے پلوامہ میں 40 انڈیای نیم فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنایا تو مودی حکومت نے پاکستان میں مبینہ ’دہشت گردوں کے کیمپ‘ پر فضائی حملے سے اس کا جواب دیا۔

اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر اور ’وار اینڈ پیس اِن ماڈرن انڈیا‘ کتاب کے مصنف سری ناتھ راگھون نے حال ہی میں کہا: ’اب انڈیا میں قومی سطح پر یہ امید بن چکی ہے کہ (پاکستان کے خلاف) کچھ نہ کچھ فوجی کارروائی ضرور ہوگی۔ حکومت اتنے سنگین حملے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی۔‘

لیکن 2019 میں سیٹلائٹ تصاویر سے یہ ظاہر ہوا کہ انڈین بمباری کسی اہم ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکام رہی تھی۔ اس کے بعد دونوں فضائی افواج کی جھڑپ میں پاکستان نے نہ صرف ایک انڈین لڑاکا طیارہ مار گرایا بلکہ اس کے پائلٹ کو بھی گرفتار کر لیا جو پاکستان کے زیرِ انتظام علاقے میں گرا تھا۔

اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی یادداشت میں لکھا کہ دنیا کو صحیح طور پر اندازہ نہیں کہ ’فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان کی دشمنی کس حد تک جوہری تصادم کے قریب پہنچ گئی تھی۔‘

انڈیا پاکستان تنازع میں یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ چین اور امریکہ جیسی عالمی طاقتیں سرد جنگ جیسی صورت حال میں متضاد فریقوں کی حمایت کریں گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق ترجمان نیڈ پرائس نے روئٹرز کو بتایا: ’اگر انڈیا کو یہ تاثر ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ ہر حال میں اس کا ساتھ دے گی، تو ہم مزید شدت اور تشدد کی طرف جا سکتے ہیں۔‘

گذشتہ ہفتے دہلی میں ہونے والی تجارتی اور سکیورٹی ملاقات کے دوران نائب صدر جے ڈی وینس نے خبردار کیا کہ اگر یہ ممالک تعاون نہ کریں تو 21 ویں صدی انسانیت کے لیے ’انتہائی تاریک‘ ثابت ہو سکتی ہے۔

اصل میں وینس امریکہ کی جانب سے انڈیا کو مزید عسکری سازوسامان فراہم کرنے کی حمایت کر رہے تھے جو ماضی میں روسی ساختہ ہتھیاروں پر انحصار کرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’انڈیا میں امریکہ کو ایک دوست ملا ہے اور ہم ان دو عظیم ممالک کے درمیان گرم تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور یہ تعلقات دونوں کے لیے فائدے کا سودا ہیں۔‘

ادھر چینی خبر رساں ایجنسی کے مطابق وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ چین ’پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کے تحفظ‘ کی حمایت کرتا ہے۔

انڈین دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے ایکس پر لکھا: ’جنوبی ایشیا میں تین طرفہ سکیورٹی نظام ہے جہاں پی ایل اے (چین کی پیپلز لبریشن آرمی) پاکستان کی فوج کو اپنی غیر فوجی طاقت، سپیئر پارٹس، گولہ بارود، میزائل اور دیگر سازوسامان کی باقاعدہ فراہمی سے مدد دے گی جب کہ انڈین فوج کو یہ فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ جنگی علاقے میں پی ایل اے کے سائبر حملے اور الیکٹرانک مداخلت بھی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔‘

مزید برآں اطلاعات ہیں کہ کئی ترک C-130 فوجی طیارے، جن میں مبینہ طور پر جنگی سامان ہو سکتا ہے، پاکستان پہنچے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انقرہ بھی اسلام آباد کے ساتھ صف آرا ہو سکتا ہے۔

فروری میں پاکستان کی فوجی انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ نے کہا کہ پاکستان آرمی انڈیا کی افغانستان میں موجود پاکستان مخالف تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی مبینہ حمایت پر شدید برہم ہے۔

11 مارچ کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین پر بلوچ قوم پرستوں کے حملے نے پاکستان میں اس تاثر کو جنم دیا کہ مقتدر حلقے اب (انڈین مداخلت کو) مزید برداشت کے موڈ میں نہیں ہیں۔

اس کشیدگی میں مزید اضافہ 15 اپریل کو پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی تقریر سے ہوا جو انڈیا اور ہندوؤں سے شدید ’ناپسندیدگی‘ پر مبنی تھی۔ 1958 سے پاکستان فوج نے یا تو براہ راست یا پردے کے پیچھے ملک پر حکومت کی ہے۔ بظاہر انڈین انٹیلیجنس یا تو پاکستانی جذبات کو سمجھنے میں ناکام رہی یا اسے نظر انداز کیا۔

نو اپریل کو انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’مودی حکومت کی مربوط کوششوں نے جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے پورے نیٹ ورک کو مفلوج کر دیا ہے۔‘ اگر یہ سچ ہے، تو پھر اس خطے میں تقریباً 10 لاکھ سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کیوں ضروری ہے؟

1989  میں پاکستان نے مبینہ طور پر مسلم اکثریت والے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جنگجو بھیجنے شروع کیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان، 1971 میں انڈیا کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے الگ ہو کر بنگلہ دیش بننے کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ انڈیا نے 1990 کی دہائی میں اس کا جواب دینا شروع کیا۔ اس آنکھ کے بدلے آنکھ والے سلسلے میں ’پاکستانی دہشت گردوں‘ نے ایک برطانوی سمیت تقریباً 165 افراد کو قتل کر کے تشدد کا سلسلہ جاری رکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2016 میں انڈین یوم آزادی پر مودی نے غیر معمولی طور طور پر دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ دنوں بلوچستان کے لوگوں نے میرا شکریہ ادا کیا، نیک خواہشات کا اظہار کیا۔‘ اس بیان نے پاکستان کو انڈیا پر بلوچستان میں علیحدگی کو ہوا دینے کا الزام لگانے کا موقع دے دیا۔ مختصراً، دہشت گردی کا تبادلہ صرف ایک طرفہ نہیں رہا اگرچہ یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا کردار زیادہ سنگین رہا ہے۔

ابتدائی طور پر ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ نامی تنظیم نے پہلگام واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کا عندیہ دیا لیکن بعد میں ’غیر مبہم طور پر‘ اس سے انکار کر دیا۔ تاہم اگر واقعی پاکستان میں مقیم کوئی غیر ریاستی تنظیم ان معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری پھر بھی پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔

اسی دوران مودی کو بین الاقوامی برادری کے سامنے پاکستانی ریاست کی ممکنہ شمولیت کے ناقابل تردید ثبوت پیش کرنا ہوں گے تاکہ کسی بھی سرحد پار کارروائی کو قانونی جواز مل سکے۔

جیسے جیسے کشیدگی بڑھ رہی ہے اور جغرافیائی منظرنامہ تبدیل ہو رہا ہے خدشہ ہے کہ کشمیر میں جو مشکل سے امن قائم ہوا تھا وہ ایک ایسے ہولناک تصادم میں بدل سکتا ہے جس کا تصور بھی خوفناک ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا