مدن لال کھورانا 1998 میں ایٹمی تجربات کے دوران انڈیا کے پارلیمانی امور کے وزیر تھے، جنہوں نے اس وقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بارے میں ایک بیان کے دوران کہا تھا:
’انڈیا اب ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اگر پاکستان اب کوئی دوسری جنگ چاہتا ہے تو دن اور وقت کا تعین کرے کیونکہ اس کے لیے اب ہم تیار ہیں۔‘
جرمنی کے ادارے فرائڈرچ ایبرٹ سٹفٹنگ (ایف ای ایس) کے مطابق یہ بیان اس وقت سامنے آیا تھا، جب انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو ایٹمی تجربات کیے تھے۔
انڈیا کے ایٹمی تجربات سے پہلے مارچ 1998 میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اقتدار میں آئی تھی اور ایٹمی تجربات کرنے کا فیصلہ بھی بی جے پی کی حکومت نے ہی کیا تھا۔
بی جے پی کے اس وقت کے ترجمان کرن شرما نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا: ’پاکستان کو اب انڈیا کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر وہ انڈیا مخالف پالیسی سے باز نہ آیا تو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان بیانات کے بعد لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر 20 مئی 1998 کو پاکستانی اور انڈین بارڈر سکیورٹی فوسرز کے مابین شدید جھڑپیں دیکھی گئیں۔
پاکستان فوج کے اُس وقت کے سربراہ جہانگیر کرامت نے جھڑپوں کے دوران 23 مئی کو لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا اور 25 مئی کو واپسی پر انہوں نے بتایا کہ سرحد پر موجود پاکستانی فوجی دستے انڈیا کے ایٹمی تجربات کے بعد پریشان تھے۔
اُس وقت جہانگیر کرامت نے پاکستانی فوجیوں کو بتایا کہ انڈیا کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر فوجی کارروائیوں کا جواب دیا جائے گا اور طاقت کا توازن برابر کرنے سے بڑی کوئی قربانی نہیں ہوسکتی۔
یہ پاکستان کے لیے ایک ایسا وقت تھا کہ ملک میں ایٹمی تجربات کی چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھی اور دوسری جانب امریکہ، برطانیہ، جاپان اور دیگر بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کو ایٹمی تجربات نہ کرنے پر آمادہ کر رہی تھیں۔
ایف ای ایس کی رپورٹ کے مطابق اُس وقت پاکستان نے امریکہ سے ایف 16 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کر رکھا تھا اور اس کے لیے رقم بھی ادا کر دی گئی تھی لیکن امریکہ نے شرط رکھی کہ اگر پاکستان ایٹمی تجربات نہ کرے تو اسے طیارے دے دیے جائیں گے۔
اسی طرح امریکہ نے پاکستان کو ایٹمی صلاحیتوں کے تجربات نہ کرنے کے بدلے تقریباً پانچ ارب ڈالر کا معاشی پیکج دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔
پاکستان نے عالمی طاقتوں سے انڈیا کی جانب سے ایٹمی طاقت کا استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی مانگی، لیکن کوئی بھی ملک یہ یقین دہانی کروانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق انڈیا کے ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ نے چین کا دورہ کیا، لیکن چین نے بھی انڈیا کی جانب سے ایٹمی طاقت کے استعمال کے دوران سپورٹ کا وعدہ نہیں کیا، تاہم روایتی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
اس وقت کے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے ٹی سی ایم کو اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا: ’میں خود چین گیا تھا اور (انڈیا کے) ایٹمی تجربات کا بتایا، چین نے ہماری باقی تمام تر سپورٹ کا وعدہ کیا لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ ایٹمی تجربات کا فیصلہ کرنا یا نہ کرنا پاکستان کا کام ہے۔’
ایف ای ایس جریدے میں تجزیہ کار حسن عسکری نے لکھا ہے: ’مقامی سطح پر پاکستان میں موجود امریکہ کے سفارت کار اس وقت کی قائد حزب اختلاف بے نظیر بھٹو کو ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرنے پر آمادہ کر رہے تھے، لیکن وہ نہیں مانی تھیں۔‘
اسی طرح امریکی سفارت کاروں کی جانب سے اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کو بھی مخالفت کے لیے راضی کیا جا رہا تھا لیکن ایٹمی دھماکوں کے لیے وفاقی حکومت نے تمام تر تیاری خود کی اور اس میں صوبائی حکومت کا ہاتھ نہیں تھا۔
اس وقت جماعت اسلامی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے 21 اور 24 مئی کے دوران کل جماعتی کانفرنسز بھی بلائی گئی تھیں، جن میں حکومت پر ایٹمی دھماکے کرنے پر زور دیا گیا جبکہ جماعت اسلامی کی جانب سے مختلف مقامات پر مظاہرے بھی کیے گئے۔
جماعت اسلامی نے کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ اگر حکومت ایٹمی تجربات نہیں کریں گے تو جماعت اسلامی سڑکوں پر نکلے گی۔
گیلپ پاکستان کی جانب سے اس وقت کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 70 فیصد پاکستانی ایٹمی تجربات کرنے کے حق میں ہے۔
ایٹمی پروگرام کی بنیاد جو ‘مفاد عامہ’ کے لیے تھا!
پرسٹن یونیوسٹی کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان نے سب سے پہلے ایٹمی پروگرام کا اعلان 1955 میں کیا تھا اور’مفاد عامہ‘ کے لیے اس کے استعمال کے سلسلے میں ایک تحقیق کی غرض سے امریکہ سے پانچ سالہ معاہدہ بھی کیا تھا۔
اس کے بعد امریکہ نے پاکستانی سائنس دانوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دی اور 1961 میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، لیکن اس وقت اس کا مقصد ایٹمی صلاحیتوں کو طب، صنعت اور دیگر شعبوں میں استعمال کرنے کا تھا۔
امریکہ میں ٹریننگ حاصل کرنے والوں میں ایک سائنس دان منیر احمد خان بھی تھے، جو 1972 میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد پاکستان لوٹے، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے اور 1991 تک اسی عہدے پر فائز تھے۔ انہیں پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بانی اراکین میں شمار کیا جاتا ہے۔
برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کے مطابق پاکستانی سائنس دان عبدالقدیر خان 70 کی دہائی میں نیدرلینڈز کی ایک یورینیم لیبارٹری میں ملازمت کر رہے تھے اور اسی دوران پاکستان نے ان سے رابطہ کر کے یورینیم انرچمنٹ پروگرام کا بتایا۔
گارڈین کے مطابق وہاں سے کچھ پرنٹس لے کر عبدالقدیر پاکستان آگئے لیکن اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد خان سے اختلافات کے بعد بے نظیر بھٹو کی سپورٹ سے انہوں نے ’خان ریسرچ لیبارٹری‘ (کے ار ایل) کے نام سے1976 میں اپنی لیبارٹری قائم کی۔
اس لیبارٹری میں ایٹمی ہتھیار بنانے کا پروگرام شروع کیا گیا۔ اسی دوران امریکہ نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگائیں لیکن سویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے پاکستان پر سے پابندیاں ہٹا دی گئیں اور ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا گیا۔
جب ایٹمی دھماکے کیے گئے!
انڈیا کی جانب سے 11 اور 13 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اور بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی مقام پر 28 اور 30 مئی کو دو ایٹمی تجربات کیے گئے۔ یوں پاکستان نے دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کر دیا۔
اشرف ملخم اسلام آباد میں ’جیو نیوز‘ سے وابستہ سینیئر صحافی ہیں اور پاکستان کے ایٹمی تجربات کو ایک سال مکمل ہونے پر 1999 میں سرکاری سرپرستی میں چاغی کا دورہ کرنے والے صحافیوں میں شامل تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چاغی کے جس مقام پر یہ تجربات کیے گئے تھے، وہ دالبندین سے تقریباً 40 کلومیٹر دور ایک سنسان علاقہ ہے۔
اشرف ملخم کے مطابق: ’اس دورے کے دوران ہم نے دیکھا تھا کہ جس پہاڑی پر تجربات کیے گئے تھے، وہ تابکاری کے بعد سے پیلا رنگ اختیار کر گیا تھا۔‘
چاغی کے ایٹمی پروگرام پر کام کرنے والے ایک سائنس دان کے حوالے سے اشرف نے بتایا کہ وہ 1977 سے یہاں کام کر رہے تھے۔
اشرف ملخم کے مطابق: ’انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ یہاں پہاڑی کے اندر ہم کام کرتے تھے اور صرف پرندوں کی آوازیں سنتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے جبکہ دور دور تک کوئی آبادی نہیں تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ خشک اور سنگلاخ پہاڑی ہے اور آس پاس آبادی بالکل نہ ہونے کے برابر تھی۔ ’ہم صرف مذہب کے سہارے یہاں پر رہ رہے تھے۔‘
اشرف نے بتایا کہ سائنس دان کے مطابق پانی اور خوراک کوئٹہ سے آتی تھی اور قیدِ تنہائی کی زندگی تھی، بس ہمارا یہ جذبہ تھا کہ ہم ملک کے لیے کچھ بڑا کام کر رہے ہیں۔
اشرف کے مطابق ایٹمی تجربات کے دن کے حوالے سے انہوں نے بتایا: ’تجربات کے دوران دھماکے والے لمحات نہ بھولنے والے ہیں، جب اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں۔‘
یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبہ کیمسٹری کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق چاغی اور کھاران کے پہاڑی سلسلے راس کوہ (بلوچی میں راس گیٹ وے اور کوہ پہاڑ کو کہتے ہیں) کو گرینائٹس چٹانوں کی وجہ سے 1976 میں ایٹمی تجربات کے لیے چنا گیا تھا اور اس میں 1980 تک سرنگ بنائی گئی تھی۔
اسی مقالے کے مطابق پاکستان نے ایٹمی بم 1978 میں بنائے تھے اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ایٹمی ہتھیاروں کے کامیاب کولڈ ٹیسٹ 1984 میں کیے گئے تھے۔
شہزادہ ذوالفقار کوئٹہ میں مقیم سینیئر صحافی ہیں اور 28 مئی 1998 کو ایٹمی تجربات کے دن وہ ایک فرانسیسی خبر ساں ادارے کے لیے کوریج کی غرض سے کوئٹہ میں موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کمیونی کیشن کا نظام جیسے موبائل فون یا سوشل میڈیا نہیں تھا تو ہمیں اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کیا ہوا ہے جبکہ لوگوں کو بھی کوئی اندازہ نہیں تھا۔
ذوالفقار نے بتایا: ’اخبار چونکہ رات کو مکمل ہو کر صبح چھپنا تھا اور ہم اسی کوشش میں تھے کہ معلوم کر سکیں کہ کیا ہوا ہے کیونکہ کچھ لوگوں نے زمین لرزتی ہوئی محسوس کی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ زلزلہ تھا جبکہ بعض نے ہمیں بتایا تھا کہ زمین کے اندر ایک لہر سی گزری ہے لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایٹمی تجربات بلوچستان میں کیے جائیں گے۔
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بعض لوگوں نے بہت پہلے سے اس مقام پر فوجی نقل و حمل محسوس کی تھی لیکن انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ یہاں ایٹمی تجربات ہو رہے ہیں۔
28چہ مگوئیوں اور قیاس آرائیوں کے اس سلسلے کے درمیان مئی 1998 کو بلوچستان میں چاغی کے مقام پر ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان دنیا میں ایک جوہری طاقت کے طور پر ابھرا، اس کے بعد سے ہر سال اس دن کو ’یومِ تکبیر‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔