خیبر پختونخوا کے نئے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے صوبے میں قیام امن کے لیے 25 اکتوبر کو ضلع خیبر میں ایک بڑے ’امن جرگے‘ کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا: ’خیبر پختونخوا کے عوام کی زندگی اور ان کے مستقبل کا فیصلہ صوبے کے لوگ خود کریں گے۔کسی کو بھی بند کمروں کے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس سلسلے میں قیام امن کے لیے بروز ہفتہ 25 اکتوبر، 2025 کو ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر قبائلی عمائدین، مشران اور نوجوانوں کا بڑا امن جرگہ منعقد کیا جائے گا۔
’خیبر پختونخوا کی حکومت عمران خان کے نظریے اور صوبے کے عوام کے مفاد کے ساتھ کھڑی ہوگی انشاءاللہ۔‘
سہیل آفریدی نے بدھ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، جس کے ساتھ ہی صوبے میں ایک ہفتے سے جاری آئینی اور سیاسی بحران ختم ہوا۔
خیبر پختونخواہ کے عوام کی زندگی اور ان کے مستقبل کا فیصلہ صوبے کے لوگ خود کریں گے۔ کسی کو بھی بند کمروں کے فیصلوں کو عوام پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس سلسلے میں قیام امن کے لیے بروز ہفتہ ۲۵ اکتوبر ۲۰۲۵ ضلع خیبرتحصیل باڑہ میں تمام سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر…
— Sohail Afridi (@SohailAfridiISF) October 19, 2025
اس سے قبل پیر کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد آفریدی نے صوبائی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ وہ صوبے میں فوجی موجودگی کو قانونی تحفظ دینے والے قانون کو ختم کریں گے اور عمران خان کی رہائی کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی موجودگی میں کوئی فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی اور فوجی کارروائی کوئی حل نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان شہری، جو گذشتہ 50 برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، انہیں نکالا جا رہا ہے۔
انہوں نے وفاقی حکومت اور فوجی قیادت سے درخواست کی کہ افغان پالیسی پر نظرِ ثانی کی جائے اور اس سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت، مقامی آبادی، قبائلی عمائدین اور عوامی نمائندوں کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ مثبت ردعمل سامنے آ سکے۔
سہیل آفریدی نے جمعے کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت افغان مہاجرین کے مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل طے کرنے کے لیے بلائے گئے اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے ایکس پر اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ قید میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے پالیسی ہدایات کے بغیر ایسے اجلاسوں میں شرکت عوامی مینڈیٹ کی توہین ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نومبر 2022 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے اسلام آباد کے ساتھ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔
پاکستان الزام عائد کرتا ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں انڈین سرپرستی شامل ہے، تاہم کابل اور نئی دہلی اس کی تردید کرتے آئے ہیں۔
ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے افغان طالبان پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کو ہمسائے ملک کے اندرونی مسائل سے جوڑتے ہیں اور اسلام آباد کو ان پر توجہ دینے کا مشورہ دیتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان رواں ہفتے متعدد سرحدی جھڑپوں کے باعث حالات کشیدہ رہے ہیں اور دونوں اطراف درجنوں افراد جان سے گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔
ایسی صورت حال میں دونوں ملکوں کے درمیان دوحہ میں جمعے کو مذاکرات ہوئے جس کے بعد پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق ایک معائدے میں طے پایا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ فی الفور بند ہو گا‘ اور دونوں ملک ’ایک دوسرے کی سرزمین کا احترام‘ کریں گے۔