سہیل آفریدی کی آمد: پی ٹی آئی کے لیے مثبت یا منفی؟

خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی عمران خان کے جارحانہ موڈ کی عکاسی ہے لیکن کیا اس سے پارٹی کو فائدہ ہو گا؟

سہیل آفریدی کا تعلق ضلع خیبر کی پسماندہ تحصیل باڑہ سے ہے(سہیل آفریدی/ فیس بک پیج)

صوبہ خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے جارحانہ موڈ کی عکاسی ہے لیکن کیا اس سے پارٹی کو فائدہ ہو گا؟

اسٹیبلشمنٹ کے مخالف سمجھے جانے والے پختون رہنما محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنانے کے بعد پی ٹی آئی کا سہیل آفریدی کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ پارٹی کی مزاحمتی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کی ایوان اقتدار سے رخصتی اور سہیل آفریدی کی آمد نے پی ٹی آئی کے کارکنان میں ایک نیا جوش وجذبہ پیدا کر دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہوش کے عنصر کو بھی پیش نظر رکھا جا رہا ہے؟

سہیل آفریدی کی وجہ شہرت وہ ویڈیو ہے جس میں وہ ایک فوجی افسر کے ساتھ تلخ کلامی کرتے نظر آتے ہیں۔

انہیں پی ٹی آئی کا ایک جانثار کارکن سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا۔

ایک کارکن اور پارٹی عہدے دار کے طور پر انہوں نے جارحانہ پالیسی اپنائی، جس کا لب و لباب یہ ہے کہ صلح پسندی کے نعرے کو ترک کیا جائے اور طاقت ور حلقوں کی آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بات کی جائے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ کچھ ایسی ہی شہرت علی امین گنڈاپور کی بھی تھی، لیکن اقتدار کی راہ داریاں مصالحتوں سے بھری ہوتی ہیں۔

ان کے خیال میں سہیل آفریدی کو یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا ورنہ وفاق اور طاقت ور حلقوں سے کشیدگی کے علاوہ صوبے کو کچھ نہیں ملے گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبہ بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ایسے میں اگر پی ٹی آئی نے وفاق سے تصادم کی راہ اختیار کی تو پھر اس کے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی زندگیوں کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ وفاق کے تعاون کے بغیر صوبے میں امن ناممکن ہے۔

امن کے بغیر نہ ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے اور نہ عوام کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ خدمت کے بغیر مستقبل کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے لیے جیت مشکل ہو سکتی ہے۔

ناقدین کا خیال ہے کہ عمران خان ماضی کی غلطیاں دوہرا رہے ہیں۔ جب 2022 میں ان کی حکومت کو وفاق میں ختم کیا گیا تو پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ان کی حکومتیں تھیں۔

عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ ان حکومتوں کے وسائل کو استعمال کر کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بناتے۔

سکولوں اور ہسپتالوں کا جال بچھاتے۔ سٹرکوں اور موٹرویز کے ذریعے عوام کے دل جیتتے اور بدعنوانی کے خلاف حقیقی جنگ کا اعلان کرتے۔

لیکن خان صاحب نے اس کے برعکس چار علاقوں کے وسائل کو احتجاج پر لگا دیا۔ وزیروں اور مشیروں کی ساری توجہ ان احتجاجی پروگراموں پر تھی، جس کی وجہ سے وہ وفاق سے بھی تصادم میں آئے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ دو علاقوں میں حکومت ختم ہوگئی اور پنجاب میں خان صاحب نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری۔

بچ جانے والی خیبر پختونخوا کی حکومت بھی وقت گزرنے کے ساتھ اس ایجیٹیشن سے عاجز آ گئی لیکن چونکہ عوام کی خان صاحب سے جذباتی وابستگی تھی، اس لیے صوبے میں ان کو بہت زیادہ ووٹ ملے۔

تاہم دوسرے علاقوں میں وہ حکومت نہیں بنا سکے۔ نو مئی کے بعد پارٹی پر برا وقت آیا اور اب پارٹی کی عملی موجودگی خیبر پختونخوا کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی۔

ایسے میں سہیل آفریدی کو لا کر عمران خان نے تصادم کی جس سیاست کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی ہے، اس کا نقصان پارٹی کو ہو سکتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور اگر کابل نے پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی تو اس کشیدگی میں مذید اضافہ ہوسکتا ہے، جس کا اثر خیبر پختونخوا حکومت پر پڑ سکتا ہے، جو کابل سے مذاکرات کی حامی رہی ہے۔

صوبے کے مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ تاہم عوامی سطح پر ایسے آپریشنز کی حمایت موجود نہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ ان آپریشنز سے دہشت گرد کم اور عوام زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ ماضی میں کیے جانے والے آپریشنز پر بھی سوالات کر رہے ہیں۔

گنڈاپور پر سخت دباؤ تھا کہ وہ ان آپریشنز کی حمایت کریں، جن میں ممکنہ طور پر عوام کو بے دخلی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔

سہیل آفریدی کا بھی سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ وہ ان آپریشنز کے حوالے سے کیا لائن لیتے ہیں اور معدنیات کے معاملے پر وفاق کو کیسے مطمئن کرتے ہیں، جو امریکہ سے لے کر سعودی عرب تک ان میں سرمایہ کاری کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر سہیل آفریدی ان دو اہم مسئلوں پر حکومتی لائن لیتے ہیں تو عوام پی ٹی آئی کے خلاف ہو سکتی ہے، لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کو اسٹیبلشمنٹ کے غیض وغصب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبے کے کچھ حصوں میں اس طرح کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پولیس کو مضبوط بنایا جائے اور فوج کو صوبے سے نکالا جائے۔

سہیل آفریدی کا عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ ایمل ولی کے حوالے سے بیان اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سخت موقف اپنائیں گے۔

ایسے میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر افغانستان سے کشیدگی بڑھتی ہے یا امن و امان کا مسئلہ سنگین ہوتا ہے تو صوبے میں پی ٹی آئی حکومت ختم بھی ہو سکتی ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد حکومت کو بدلنا گو مشکل ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی میں بڑا فاروڈ بلاک بنتا ہے تو ناممکن، ممکن میں بدل سکتا ہے۔

اس کے علاوہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوسرے اسیر رہنماؤں کے حوالے سے مزید سخت عدالتی فیصلے سامنے آ سکتے ہیں۔

اسی لیے کئی سیاسی مبصرین سہیل آفریدی کی آمد کو پی ٹی آئی کے لیے تباہی کا نسخہ قرار دیتے ہیں۔

تاہم پی ٹی آئی کے حامی مبصرین کے مطابق عمران خان کا یہ ایک مثبت فیصلہ ہے، جس سے ناصرف صوبے میں ان کا ووٹ بینک مضبوط ہوگا بلکہ ملک میں جمہوریت پسندوں حلقوں میں بھی ان کی پذیرائی ہو گی، جس سے ان کے ماضی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ روابط کے گناہ بھی دھل سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر