انڈیا کا زیر انتظام کشمیر نومبر کے مہینے میں ایک منفرد شکل اختیار کر لیتا ہے، جب چنار کے درخت اور ان سے گرنے والے سرخ، گولڈن اور نارنجی رنگ کے پتے وادی کو ایک قدرتی کینوس میں بدل دیتے ہیں۔
اس موسم کو کشمیر کے مقامی لوگ ’ہارود‘ کہتے ہیں، جب سورج کی روشنی درختوں سے چھن کر زمین پر سنہری چمک ڈالتی ہے اور پوری وادی سنہرے رنگ میں نہلا سی جاتی ہے۔
خزاں کا موسم درحقیقت وادی کے سب سے حسین اور پرسکون موسموں میں سے ایک ہے۔ اس موسم میں نہ تو سخت سردی ہوتی ہے اور نہ ہی سیاحوں کی وجہ سے ہجوم ہوتا ہے۔
بہت سے سیاح اس موسم کو ’کشمیر کا سب سے کم بات کرنے والا لیکن سب سے زیادہ جادوئی موسم‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ درختوں سے گرتے پتوں کی سرسراہٹ، دور دراز پہاڑوں پر پڑنے والی سورج کی روشنی اور جھیلوں پر پڑنے والے سنہری سائے، یہ مسحور کن امتزاج سیاحوں اور فوٹوگرافروں کے لیے ایک خواب جیسا تجربہ بناتے ہیں۔
چنار کے درخت کشمیر کی روح ہیں۔ یہ صدیوں پرانے درخت وادی کی تاریخ، ثقافت اور خوبصورتی کی علامت ہیں۔ جب خزاں شروع ہوتا ہے تو یہ درخت وادی کا روپ ہی بدل دیتے ہیں۔
دہلی سے آئے ہوئے ایک سیاح نے اس خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے کہا: ’پتوں کا گرنا، بدلتے رنگ، اور ہوا میں سرسراہٹ گویا سب کچھ جادو کی طرح محسوس ہوتا ہے۔‘
اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں، سینکڑوں لوگ روزانہ سری نگر کی کشمیر یونیورسٹی، نشاط گارڈن، شالیمار باغ، بادام واری اور مشہور نسیم باغ جیسے مقامات کا دورہ کرتے ہیں۔
طلبہ، سیاح، مقامی لوگ اور فوٹوگرافرز چنار کے درختوں کے نیچے تصویریں کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بچے ہوا میں پتے اچھالتے ہیں، نئے جوڑے فوٹو شوٹ کرواتے ہیں اور بہت سے لوگ خاموشی سے زمین پر بیٹھ کر حسین نظاروں میں کھو جاتے ہیں۔
پنجاب سے آئے ہوئے ایک سیاح نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ ہر سال اس لمحے کا انتظار کرتے ہیں۔ ’جب سورج کی کرنیں چنار کے پتوں سے چمکتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے سب کچھ چمک رہا ہو، خزاں صرف ایک موسم نہیں ہے بلکہ ایک احساس ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دہلی سے آئے ہوئے ایک اور سیاح نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں میں لوگوں نے خاص طور پر موسم خزاں کے دوران یہاں آنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس وقت ’موسم خوشگوار ہے، ہجوم کم ہے اور خوبصورتی اپنے عروج پر ہے۔ یہ موسم کشمیر کو اپنے سب سے پر سکون انداز میں پیش کرتا ہے۔‘
رواں برس اپریل میں پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد کشمیر میں سیاحت کی صنعت کو بڑا دھچکہ لگا۔ بکنگز منسوخ کر دی گئی، ہوٹل خالی رہے اور مقامی معیشت بری طرح متاثر ہوئی، لیکن خزان کے موسم میں سیاحت کے شعبے میں نئی امید پیدا ہوئی ہے۔
مقامی تاجروں کے مطابق گذشتہ چند ہفتوں میں سیاحوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے اور فوٹوگرافی کے شوقین، نئے شادی شدہ جوڑے اور یہاں تک کہ فلم سازی سے وابستہ افراد بھی کشمیر واپس لوٹ رہے ہیں۔
اپنی اہلیہ کے ساتھ کشمیر آنے والے دہلی سے تعلق رکھنے والے اجے وہل نے بتایا کہ انہوں نے جان بوجھ کر موسم خزاں کا انتخاب کیا ہے۔ ’یہ بالکل جادوئی ہے۔ سنہری پتے ذہن کو سکون بخشتے ہیں۔ ہر کسی کو خزاں میں کم از کم ایک بار کشمیر کا دورہ کرنا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ’ہم نے نشاط گارڈن اور دوسرے باغات دیکھے اور ایسا لگا جیسے ہم یورپ میں ہیں۔ ہم وہاں سے جانا نہیں چاہتے، یہاں کی خوبصورتی ہمارے دلوں کو بھر دیتی ہے۔‘
اجے وہل کی اہلیہ نے کہا کہ ’ہم نے جو فلموں میں دیکھا، وہ حقیقت میں دیکھ رہے ہیں، اگر کوئی پوچھے کہ جنت کہاں ہے، تو یہ کشمیر ہے، یہاں کوئی خوف نہیں۔ موسمِ خزاں صرف رنگوں کا کھیل نہیں ہے، بلکہ لوگوں کو فطرت کے ساتھ وقت گزارنے اور زندگی کو ایک نئے انداز میں تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پتوں کے گرنے کی آواز، چنار کی لالی، باغوں میں گونجتی ہنسی، جھیلوں میں تیرتی دھوپ، یہ سب اس موسم کو واقعی یادگار بنا دیتے ہیں۔ یہ موسم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کشمیر صرف برف کا نہیں اور یہ صرف پہاڑوں کی سرزمین نہیں ہے۔ یہ رنگوں، جذبات، ثقافت اور زندگی کی متنوع شکلوں سے بھری ہوئی ایک متحرک وادی ہے، جہاں ہر موسم ایک نئی کہانی لاتا ہے۔‘