جمعے کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور نیویارک کے نو منتخب بائیں بازو کے میئر ظہران ممدانی کی ملاقات کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ دونوں مہینوں سے ایک دوسرے پر سخت جملے کس رہے تھے۔
لیکن یہاں زیلنسکی طرز کی کوئی تکرار نہ ہوئی۔ ملاقات مکمل طور پر خوشگوار ماحول میں رہی۔
دائیں بازو کے رئیل سٹیٹ ٹائیکون اور ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ نے ICE چھاپوں اور فاشزم کے الزامات جیسے ناخوشگوار سوالات کو نظرانداز کیا اور کم از کم کیمروں کے سامنے، نیویارک سے اپنی محبت اور وہاں مکانات کی تعمیری خواہش پر یکجہتی کا اظہار کیا۔
یہ سمجھا جا رہا تھا کہ 79 سالہ ٹرمپ اور 34 سالہ انڈین-یوگنڈن نژاد مسلمان، جنہیں ٹرمپ نے ’100 فیصد کمیونسٹ پاگل‘ کہا تھا، کے درمیان ماحول کشیدہ ہو گا۔
ٹرمپ کا یہ ہفتہ اچھا نہیں رہا۔ اگرچہ اس کا آغاز اچھا ہوا تھا۔ منگل کو سعودی عرب کے حکمران محمد بن سلمان امریکہ میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے ایف 35 جنگی طیارے حاصل کرنے کے لیے اوول آفس پہنچے۔
مگر 24 گھنٹے کے اندر ہی معاملات بگڑ گئے جب رپبلکن پارٹی نے کبھی کبھار ظاہر ہونے والی اپنی ریڑھ کی ہڈی دکھاتے ہوئے صدر کو ایپسٹین فائلز کا پورا ریکارڈ جاری کرنے کا حکم دینے پر مجبور کر دیا۔ کیا ٹرمپ کی جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ’گون سکواڈ‘ تمام دستاویزات جاری کرے گی؟ شاید نہیں۔
اس کے باوجود واشنگٹن کے مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ خوفزدہ بھی ہیں اور سخت غصے میں بھی۔ اس کا اندازہ ان کی ٹروتھ سوشل پر طوفانی انداز میں کیے گئے پوسٹس سے ہوتا ہے۔
اوول آفس میں نیویارک کے میئر الیکٹ کے ساتھ البتہ مسکراہٹیں بھی تھیں اور ہلکی پھلکی خود تنقیدی مزاح بھی۔ کیا ٹرمپ کو برا لگا کہ ان کے برابر کھڑے شخص نے انہیں ’فاشسٹ‘ قرار دیا تھا؟
’مجھے اس سے بدتر بھی کہا جا چکا ہے،‘ امریکی صدر نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ممدانی ٹرمپ کے لیے کسی حد تک تجسس کا باعث محسوس ہوتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ میئر الیکٹ کی سیاسی مہارت ناقابلِ تردید ہے۔ وہ کہیں سے اُبھرتے ہوئے سامنے آئے اور انہوں نے امریکہ کے امیر ترین شہر پر کنٹرول رکھنے والی کومو کی سیاسی موروثیت کو عبرتناک شکست دی۔
اور ٹرمپ ایک کامیاب شخص کی قدر کرتے ہیں۔ ’انہوں نے واقعی شاندار انتخابی مہم چلائی، بہت ذہین لوگوں کے مقابلے میں جیت حاصل کی،‘ ٹرمپ نے کہا۔
ٹرمپ نے ممدانی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا: ’مجھے امید ہے وہ ایک بہت اچھے میئر ثابت ہوں گے۔ وہ جتنا اچھا کریں گے، میں اتنا ہی خوش ہوں گا،‘ ایک واضح جھوٹ۔
یا شاید نہیں۔ اگر ممدانی نیویارک کی میئرشپ میں اچھا کام کر گئے تو پارٹی میں اُن کا اثر و رسوخ بڑھے گا، ایسا اثر جو ڈیموکریٹک پارٹی کے بائیں اور مرکز کے حصوں کے درمیان خطرناک تقسیم کا باعث بن سکتا ہے۔
لیکن اگر ممدانی کی میئرشپ ناکامی سے دوچار ہوئی تو رپبلکن پارٹی کے لیے یہ سیاسی گولہ بارود فراہم کرے گی۔
ٹرمپ جیسے سوچ میں گُم ہو کر بولے: ممدانی کی میئرشپ ’بہت اچھی جا سکتی ہے۔۔۔ یا پھر۔۔۔ دوسری جانب بھی جا سکتی ہے۔‘ یہ بات بہت ہلکے انداز میں کہی گئی۔
ممدانی توجہ کھینچنے والے بیانات دینے میں ماہر ہیں۔ لیکن ان کی حکومتی پالیسیوں کی تجاویز — ریاستی ملکیت کی خوراک کی دکانیں، مفت بسیں، اور سب سے بڑھ کر کرایوں کو منجمد کر دینا — سیدھے سیدھے ’سِکسٹھ فارم سوشلسٹ پلے بُک‘ سے لیے گئے ہیں۔ سویڈش ماہرِ معاشیات اسار لنڈبیک، جو کسی طور دائیں بازو کے نہیں، نے کہا تھا کہ کرایوں پر کنٹرول ’کسی شہر کو تباہ کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے — بمباری کے سوا۔‘
ممدانی ٹرمپ کے دائیں کندھے کے پیچھے ایک پُراسرار مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی، وہ اپنی دلکشی بروئے کار لاتے۔ انہوں نے اور صدر نے امریکا کے مہنگے ترین شہر کے ساڑھے آٹھ ملین افراد کی حالتِ زندگی پر بات کی جو ’زندگی برداشت کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں‘ ایک ایسا تصور جس کا موجودہ کرپٹو-ارب پتی صدر کو شاید کوئی اندازہ نہ ہو۔
ٹرمپ بار بار کمرے کا جائزہ لیتے رہے، شاید ایسے ’برے‘ رپورٹرز کو تلاش کرتے ہوئے جو ہڈی کترنے والے سوال کر دیں۔
بات پر دوبارہ آتے ہوئے ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ممدانی کے بعض خیالات ’واقعی وہی ہیں جو میرے خیالات ہیں۔‘
ٹرمپ کو یہ تک نہیں پتہ کہ سوشلزم اور کمیونزم کیا ہوتے ہیں۔
گزشتہ روز کی کانگریس میں میئر الیکٹ ممدانی کو اپنے ہی ڈیموکریٹ ساتھیوں کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے 86 نے رپبلکنز کے ساتھ مل کر ایک ہاؤس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا — جو اوول آفس کی ملاقات کے وقت جان بوجھ کر پیش کی گئی — جس میں ’سوشلزم کے ہولناک مظاہر‘ کی مذمت کی گئی۔ جبکہ انہیں ٹرمپ دوم کی ہولناکی پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیموکریٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت خوفزدہ ہے کہ ممدانی کا خالص سوشلسٹ نظریہ معتدل ووٹروں کو ڈرا دے گا، خاص طور پر سوئنگ سٹیٹس میں۔
لیکن ٹرمپ ممدانی کی اپیل، ان کی توانائی اور ان کی جوانی، بخوبی پہچانتے ہیں۔ یقیناً ڈیموکریٹس بھی جانتے ہوں گے۔ ممدانی ایک ذہین انتخابی مہم چلانے والے لیڈر ہیں جو ایک ہی پیغام پر قائم رہے، مہنگائی کے بحران پر، اور انہوں نے ڈیجیٹل میسجنگ کو اس طرح اپنایا جیسے کوئی ڈیموکریٹ اس سے پہلے نہیں کر سکا، چُست ویڈیو سٹوری ٹیلنگ اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے انہوں نے نیویارک سٹی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ وہ حکمت عملی ہے جس کی ڈیموکریٹس کو سخت ضرورت ہے، کیونکہ وہ 2024 کے صدارتی حادثے — جسے بائیڈن کی کمزوری نے ممکن بنایا — کے سائے میں وسط مدتی انتخابات اور 2028 کی صدارتی دوڑ کا تصور کر رہے ہیں۔
اور ڈیموکریٹک سٹیبلشمنٹ کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف کے حکیم جیفریز، جو سوشلزم کی مذمت کرنے والے ان 86 ڈیموکریٹس میں شامل تھے، آخر کار اُن چند لوگوں میں سے تھے جو آخری لمحے تک بائیڈن کی زبردست حمایت کرتے رہے، انتہائی تلخ انجام تک۔
نوٹ: یہ تحریر کالم گار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent