امریکہ کے صدر اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نیویارک کے نامزد میئر کے درمیان جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ملاقات اور مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا ہے، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے ’اعزاز‘ جبکہ ظہران ممدانی نے ’تعمیری‘ قرار دیا۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی لڑائی ایک طرف رکھتے ہوئے شہر کے مستقبل پر تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔
34 سالہ ظہران ممدانی وہ سیاسی باغی ہیں جو رواں ماہ کے آغاز میں گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر سٹی ہال کے فاتح بن کر ابھرے۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک سخت اور تلخ لفظی جنگ میں آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے رپبلکن رہنما کو ان ’ظالم مکان مالکان‘ جیسا قرار دیا جو ’اپنے کرایہ داروں کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
واشنگٹن پر نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ جب خود کو ڈیموکریٹک سوشلسٹ کہنے والے ممدانی رپبلکن لیڈر ٹرمپ سے ملیں گے تو حالات کشیدہ ہوں گے، کیوں کہ رپبلکن لیڈر نے انہیں ’کمیونسٹ‘ کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ یوگینڈا سے تعلق رکھنے والے نیویارک کے شہری (ظہران ممدانی) کو واپس ان کے ملک بھیج دینا چاہیے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اوول آفس میں ہونے والی ملاقات توقع کے برعکس بہت ہی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ 79 سالہ ٹرمپ مسکراتے ہوئے ملے اور ممدانی کی تاریخی جیت کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ ممدانی ’زبردست کام‘ کریں گے اور وہ ایسے آدمی ہیں جو ’نیویارک کو دوبارہ عظیم دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم ان کی مدد کریں گے تاکہ سب کا یہ خواب سچا ہو سکے کہ نیویارک ایک مضبوط اور محفوظ شہر ہو۔‘ ممدانی نے اس ملاقات کو ’بہت تعمیری‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ دونوں امریکہ کے اس سب سے بڑے شہر اور معاشی مرکز کے لیے ’ایک جیسی محبت اور پسندیدگی‘ رکھتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرمپ سے ملاقات کے موقعے پر ظہران ممدانی نے صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’میں نے اسرائیلی حکومت کے بارے میں بات کی ہے کہ وہ نسل کشی میں مصروف ہے اور میں نے ہماری حکومت کے اسے فنڈ دینے کے بارے میں بات کی۔‘
اس موقعے پر ایک صحافی نے ظہران ممدانی سے ٹرمپ کو فاشسٹ کہنے سے متعلق سوال کیا، جس کا جواب ان کی بجائے ٹرمپ نے دیتے ہوئے کہا کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ممدانی انہیں ’فاشسٹ‘ کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رات کے کھانے کے وقت تک ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر وائٹ ہاؤس ملاقات میں ممدانی کے ساتھ ملاقات کی متعدد تصاویر شیئر کیں اور تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے لکھا کہ ’نیویارک سٹی کے نئے میئر ظہران ممدانی سے ملنا ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‘
ٹرمپ کے اس یو ٹرن نے کئی قدامت پسند شخصیات کو حیران کر دیا۔ دائیں بازو کی نمایاں رہنما لورا لومر نے اس غیر متوقع گرم جوشی کو سیاسی تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ انہوں نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’آج کے بعد تو وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کلین سویپ کر جائیں گے۔ اگر ممدانی اور ان کی پالیسیوں کو اب معقول سمجھا جانے لگا ہے تو رپبلکن پارٹی 2026 سے پہلے اپنی انتخابی مہم کیسے چلائے گی؟‘
دونوں رہنماؤں کا تعلق نیویارک کے علاقے کوئینز سے ہے اور دونوں ہی سیاسی شعبدہ بازی کے ماہر ہیں، لیکن ان کے انداز میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
جہاں ٹرمپ کی سیاست کا ایندھن بلند بانگ دعوے اور شکوے شکایات ہیں، وہیں ممدانی سستی رہائش اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتے ہیں۔
منہ پھٹ ارب پتی ٹرمپ کے ساتھ اوول آفس میں ہونے والی ملاقاتیں اکثر ’گھات لگا کر تذلیل کرنے کے تماشے‘ میں بدل جاتی ہیں۔ یہ سبق یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی اچھی طرح سیکھ چکے ہیں، جنہیں ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس کے ہاتھوں سرِ عام سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سیاسی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا تھا کہ ممدانی بھی خود کو ’زیلنسکی جیسی صورت حال‘ میں پھنسا سکتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہفتوں تک لفظی گولہ باری جاری رہی تھی اور ٹرمپ نے سیاست کے اس ابھرتے ہوئے نئے کھلاڑی کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔