خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کو مقامی سیاسی پشت پناہی حاصل ہے: ترجمان فوج

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا ہے کہ نیشل ایکشن پلان پر اتفاقِ رائے ہوا تھا مگر عمل درآمد نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

لیفٹینٹ جنرل احمد شریف پشاور میں 10 اکتوبر 2025 کو پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں (پی ٹی وی)

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کی سہ پہر کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ’دہشت گردی کے پیچھے ایک دہشت گردی/جرائم کا گٹھ جوڑ ہے جس کو مکمل طور پر مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’میرے یہاں آنے کا مقصد خیبر پختونخوا کے غیور عوام کے درمیان بیٹھ کر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا احاطہ کرنا ہے اور اس جنگ میں ان کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو جگہ دی گئی۔ صوبے میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جس کا خمیازہ خیبرپختونخوا کے عوام بھگت رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ نیشل ایکشن پلان پر اتفاقِ رائے ہوا تھا مگر عمل درآمد نہ ہو سکا، جس کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے پوچھا کہ ’یہ بیانیہ کہاں سے آ گیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے خلاف ’دہشت گردی کے بیس‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور ملک کی سکیورٹی افغانستان کو رہن نہیں رکھی جا سکتی۔

جب ان سے جب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کی رات ہونے والے دھماکے کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ اطلاعات ہیں یہ کارروائی پاکستان نے کی اور اس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود کی موت کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘

نور ولی مسعود کی موت کی خبر کی تصدیق یا تردید کیے بغیر پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ’یہ جو آپ نے سٹرائیک کی بات کی اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اور افغان (طالبان حکومت کے) ترجمان کے بیان کو نوٹ کیا گیا ہے۔‘ 

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک سے صرف یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ’دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بننیں دیں۔‘  انہوں نے پاکستان افغانستان سے یہ کہتا رہا ہے کہ ’آپ برائے مہربانی اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے استعمال نہ ہونے دیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی جی آئی ایس پی آر  نے کہا کہ ’اب سٹیٹس کو نہیں چلے گا‘ اور  جو شخص یا گروہ  کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے ’خارجیوں‘ کی سہولت کاری کر رہا ہے اس کے پاس تین راستے ہیں: ’ایک: سہولت کاری کرنے والا خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دے۔ دو: دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو انجام تک پہنچائے۔ اگر یہ دونوں کام نہیں کرتے تو خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست کی طرف سے ایکشن کے لیے تیار رہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرنا تھا کہ قانون کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط کرنا ہے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں خیبرپختونخوا میں 1,435 انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز کیے گئے، 769 دہشت گرد مارے گئے جن میں 58 افغان دہشت گرد بھی شامل تھے، اور 272 آرمی و ایف سی اہلکار اور 140 پولیس اہلکار جان سے گئے، جب کہ 165 شہریوں کی بھی اموات ہوئیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 2025 میں 15 ستمبر تک 10,115 آپریشنز کیے گئے۔ ان آپریشنز میں 970 دہشت گرد مارے گئے جبکہ پاک فوج کے 311 اہلکار جان سے گئے۔

انہوں نے سلائیڈز دکھاتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دو ہزار سے زیادہ کیس پینڈنگ ہیں مگر اب تک کسی ایک کیس میں بھی مجرموں کو سزا نہ مل سکی۔ انہوں نے سوال کیا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک بیانیہ بنایا جائے گا۔ ’کیا آج ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟‘

انہوں نے سوال کیا، ’کیا اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہو رہا ہے؟‘ انہوں نے کہا کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں نہیں ہوتا۔ انڈیا نے جب پاکستان پر چھ مئی کو میزائل حملہ کیا تو لوگوں نے نہیں کہا کہ ان سے بات چیت کر لیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگرچہ 2021 سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ شروع ہوا تھا، لیکن ’جوابی کارروائیوں میں بھی تیزی آئی۔‘ ’اور بعد کے سالوں میں زیادہ تعداد میں خوارج مارے گئے۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پشاور میں 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک جامع حکمت عملی کے تحت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کر دیا تھا۔ ’ہم پرامن خیبر پختونخوا کے خواب کو پورا کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ بدقسمتی سے ایک منصوبے کے تحت، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو یہاں جگہ فراہم کی گئی۔‘

’طرز حکمرانی اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا اور ایک گمراہ کن بیانیہ بنانے کی کوششیں کی گئیں۔ خیبر پختونخوا کے عوام آج بھی اپنی جانوں اور قربانیوں سے اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان