نور مقدم کیس کے فیصلے میں جسٹس باقر علی نجفی صاحب کا اضافی نوٹ پریشان کن ہے۔ اسے پوری معنویت کے ساتھ زیر بحث آنا چاہیے۔ اس کا تعلق محض قانون کی موشگافیوں سے نہیں، سماج کے تہذیبی ڈھانچے سے بھی ہے۔
جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ یہ کیس معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائی ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا براہ رست نتیجہ ہے (جج صاحب نے ویسے live-in کو living لکھا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ ایک جج کا بنیادی فریضہ اپنے سامنے رکھے مقدمے پر قانون کا اطلاق ہے یا اس سے آگے بڑھ کر سماج کی رہنمائی کرنا بھی ان کا کام ہے کہ کون سا جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ ہے؟
ہمارے ہاں غلط مبحث بہت ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس بحث کو بعض حضرات نے اس نکتے تک محدود کردیا ہے کہ کیا ’لیو ان ریلیشن شپ‘ ایک برائی نہیں اور اگر ایک برائی کی نشاندہی کر دی گئی ہے تو اس پر اتنا شور کیں مچا دیا گیا ہے؟
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں لیو ان ریلیشن شپ زیر بحث نہیں ہے۔ یہاں زیر بحث یہ چیز ہے کہ ایک جج صاحب کو مقدمے پر فیصلہ دینا چاہیے یا ساتھ یہ بھی بتانا چاہیے کہ فلاں جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ ہے۔
ایک عام آدمی کی بات اور ایک جج کے فیصلے میں فرق ہوتا ہے۔ منصف کا فیصلہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ اس فیصلے میں اگر قانون کے نفاذ کے ساتھ ساتھ جرم کی وجوہات اور اسباب پر بھی بات ہونا شروع ہو گئی تو اس سے جورسپرووڈنس کی دنیا میں بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ آج آئینی عدالت بنی ہے ہو سکتا ہے کل کو ’وجوہاتی عدالت‘ بھی بنانا پڑ جائے تاکہ ساتھ ہی قوم کو بروقت پتہ چلتا رہے کہ کون سا جرم کس چیز کا براہ راست نتیجہ تھا۔
لیو ان ریلیشن شپ پر الگ سے بات ہو سکتی ہے، سماجیات اور مذہب کے ماہرین اس سلسلے میں رہنمائی کر سکتے ہیں اور کرنی چاہیے لیکن جب یہ بات عدالت کے فیصلے میں آتی ہے تو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہاں پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ لیو ان ریلیشن شپ اچھی چیز ہے یا بری، یہاں سوال یہ ہو جاتا ہے کہ ایک جج کا بنیادی کام کیا ہے۔ جرم پر قانون کا اطلاق کرنا یا جرم کی وجوہات پر رہنمائی کرنا۔
Noor Muqadam case:
— Hasnaat Malik (@HasnaatMalik) November 26, 2025
Justice Ali Baqar Najfi in his dissenting note has said that the present case is a direct result of a vice spreading in the upper society which we know as
"living relationship" in which societal compulsions are ignored so as to defy not only the law of the land… pic.twitter.com/fqLkH6UYmv
عدالت جب فیصلہ دیتی ہے تو معاملے کے حقائق سامنے رکھتی ہے اور اس معاملے کے ماہرین کو سن کر فیصلہ دیتی ہے۔ قانون کے معاملات پر وکلا موجود ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا دوران سماعت جرم کی وجوہات جاننے کی کوئی مشق ہوئی تھی اور متعلقہ ماہرین سے اس بارے میں کچھ سوال جواب ہوئے تھے کہ کیا یہ جرم واقعی لیو ان ریلیشن شپ کا منطقی نتیجہ ہے یا اس کے اسباب کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک خاتون جو بےرحمی سے قتل ہو گئی، اس کے قتل کو لیو ان ریلیشن شپ کا نتیجہ قرار دینا ایک طرح سے اس کے کردار پر سوال اٹھانا ہے۔ خاتون تو اب موجود نہیں کہ اپنا دفاع کر سکے۔ اس کو تو اب سنا ہی نہیں جا سکتا۔ تو کیا کسی کو سنے بغیر اس کی قبر پر لیو ان ریلیشن شپ کا الزام گاڑا جا سکتا ہے؟ قانون کی دنیا کے خواتین و حضرات کو سوچنا ہو گا، کیا یہ وکٹم بلیمنگ تو نہیں؟ شرعی قوانین کے ماہر اساتذہ اور علما سے پوچھا جانا چاہیے کہ قذف کسے کہتے ہیں؟
معاف کیجیے، مگر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ تو زنا کا الزام ہے۔ کیا شریعت کے مطابق ایسے چار گواہ موجود تھے اور عدالت کے سامنے پیش ہوئے تھے کہ ہاں یہ لیو ان ریلیشن شپ تھا اور ہم اس کی گواہی دیتے ہیں؟ اگر گواہ بھی موجود نہیں، ایک فریق اس دنیا میں ہی نہیں رہا، تو پھر اس جرم کو لیو ان ریلیشن شپ کا شاخسانہ قرار دے دینا مقتولہ کے خاندان کے لیے انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک چیز ہو سکتی ہے۔
اس مقدمے کے دوران کیا یہ چیز کسی شک و شبہے سے بالاتر درجے میں ثابت ہوئی تھی کہ یہ لیو ان ریلیشن شپ ہی تھا؟ کیا یہ ثابت ہو گیا تھا کہ یہ قتل واقعی لیو ان ریلیشن شپ ہی کا نتیجہ تھا؟ کیا مقتولہ نے مرتے وقت اعتراف کیا تھا میرے منصفوں تک خبر پہنچا دینا کہ میرا کردار ٹھیک نہیں تھا؟ اگر یہ محض ایک گمان یا قیاس یا تاثر ہے تو کیا گمان قیاس اور تاثر کو فیصلے میں امر واقع بنا کر پیش کرنا ایک مناسب چیز ہے؟
یہ تو گویا فیصلہ سنا دیا گیا کہ لڑکی اس لیے ماری گئی کہ اس کا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ وہ لیو ان ریلیشن شپ میں تھی اور اس تعلق کا نتیجہ تو پھر قتل ہی نکلتا ہے۔ یعنی خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اس اختلافی نوٹ پر پارلیمان میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔ یہ ایسی چیز نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔