نور مقدم قتل کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار

مجرم ظاہر جعفر نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے سزائے موت کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی جس پر دو رکنی بینچ نے گذشتہ برس 21 دسمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو ٹرائل کورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا ہے۔ 

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل بینچ نے 21 دسمبر، 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 

بینچ نے اپنے فیصلے میں ظاہر کی 25 سال قید کی سزا کو بھی سزائے موت میں بدل دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سات دنوں کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے 24 فروری، 2022 کو ظاہر جعفر کو تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا تھا جبکہ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو 10، 10 سال کی قید سنائی تھی۔

ظاہر جعفر اور شریک مجرمان نے ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزاؤں کو مارچ، 2022 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

آج فیصلہ سنائے جانے کے موقعے پر عدالت میں موجود نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ نو مقدم کے جانے سے ایک خلا پیدا ہوا ہے اور وہ گھر کی ایک بڑی رونق تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ بہت سے معاملات میں نور سے مشورہ کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوکت مقدم نے کہا کہ یہ ایک طویل جنگ ہے اور اگر وہ اس موقعے پر پیچھے ہٹ گئے تو منفی قوتوں کی فتح ہو گی۔

’ہم یہ کسی صورت نہیں ہونے دیں گے، ہماری بچی کی تو جنگ ہے ہی لیکن یہ پورے پاکستان کی بچیوں کی جنگ ہے۔‘

انہوں نے کہا یہ سب کرنا سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے۔ وہ اکیلے یہ سب نہیں کر سکتے، سب کو مل کر یہ کام کرنا ہو گا۔

20 جولائی، 2021 کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں نور مقدم کا قتل کر دیا گیا تھا۔

ظاہر کو پولیس نے جائے واردات سے گرفتار کیا تھا جبکہ تیز دھار آلہ قتل بھی اسی مکان سے ملا۔ وہ مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے بیٹے ہیں۔

شروع میں ملزم قتل سے انکار کرتے رہے، تاہم سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو مل جانے کے بعد حقائق بڑی حد تک آشکار ہوئے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے کے بعد مذکورہ گھر کے دو ملازمین کو بھی گرفتار کیا گیا، جنہوں نے نور مقدم کو گھر کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا، لیکن پولیس کو اس متعلق اطلاع نہیں دی۔

اس کیس کو میڈیا پر بہت شہرت ملی تھی اور اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ کیس کے مجرم قانون سے نہیں بچیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان