حکومت پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کی منظوری دی ہے۔ داخلی سلامتی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کے لیے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں ایک سنگین اور دیرینہ مسئلہ ہیں۔
حکومت ملک میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور علیحدگی پسندی میں ملوث درجنوں تنظیموں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کالعدم قرار دے چکی ہے، تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ ان تنظیموں میں سے کئی پابندیوں سے بچنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے چند ہی روز میں اپنا نام تبدیل کر کے، یا نئے فلاحی و سیاسی چہروں کے تحت، ایک نئی شکل میں ابھر آتی ہیں۔
یہ عمل ریاست کی کوششوں کو کمزور کرتا ہے اور شدت پسندی کی جڑوں کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
کالعدم تنظیموں کا نئے ناموں کے تحت کام کرنا کوئی نیا رجحان نہیں، بلکہ پاکستان میں شدت پسندی کی تاریخ کا ایک باقاعدہ حصہ ہے۔ یہ تنظیمیں ریاستی پابندیوں کو صرف کاغذی کارروائی تک محدود رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی استعمال کرتی ہیں۔
اس حکمت عملی کا سب سے عام طریقہ تنظیمی نام کو تبدیل کرنا ہے۔ ایک کالعدم تنظیم پر پابندی لگنے کے بعد، اس کے رہنما اور کارکن فوراً ایک نئے نام کے تحت ایک نئی تنظیم کا اعلان کر دیتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک نئی جماعت ہوتی ہے، لیکن اس کی قیادت، مقاصد، بنیادی ڈھانچہ اور کارکنان عموماً وہی پرانی تنظیم کے ہوتے ہیں۔
اس کی مثالوں میں سپاہِ صحابہ پاکستان ہے، جسے کالعدم قرار دیا گیا تو وہ ملتِ اسلامیہ پاکستان کے نام سے فعال ہوئی اور بعد میں اہلِ سنت والجماعت کے نام سے بھی سرگرم رہی، جس پر بھی پابندی عائد ہوئی۔
اسی طرح جیشِ محمد کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس کے کارکنان خدام الاسلام کے نام سے سرگرم ہوئے۔
تحریکِ جعفریہ پاکستان کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس کے نئے ناموں میں اسلامی تحریک پاکستان بھی شامل رہا۔ لشکرِ طیبہ سے منسلک کئی سرگرمیاں اور فلاحی کاموں کے لیے بنائے گئے اداروں میں جماعت الدعوۃ اور اس سے منسلک فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے نام نمایاں رہے، جو خود بھی بعد میں کالعدم قرار دیے گئے۔
جماعت الدعوۃ نے انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی دھڑا بھی بنایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شدت پسند تنظیمیں اکثر اپنی غیر قانونی کارروائیوں کے لیے عوامی حمایت اور مالی وسائل جمع کرنے کی خاطر فلاحی اداروں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
یہ ادارے زلزلوں، سیلابوں یا دیگر قدرتی آفات کے دوران بڑے پیمانے پر امدادی کام کر کے عوام میں اپنی نیک نامی بناتے ہیں، جس سے حکام کے لیے ان کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ فلاحی ادارے دراصل فنڈ ریزنگ کی معاونت کے لیے ایک جال کا کام کرتے ہیں۔ قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے بھی نئے اور غیر رجسٹرڈ فلاحی اداروں کے نام استعمال کیے جاتے ہیں۔
بعض کالعدم تنظیمیں ملکی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتیں بنا لیتی ہیں۔ یہ نئی سیاسی جماعتیں خود کو ملکی دستور اور انتخابی عمل کا حصہ ظاہر کرتی ہیں۔ اس طرح وہ ایک طرف ریاستی قانون کی پاسداری کا دکھاوا کرتی ہیں اور دوسری طرف اپنے کارکنان کو سیاسی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
کالعدم تنظیموں کے نئے ناموں سے سرگرم ہونے کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اور کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں، کارکنان اور اثاثوں کو نشانہ بنانے کے لیے قوانین کو زیادہ مضبوط اور مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
پابندی کا دائرہ صرف نام تک محدود رکھنے کی بجائے، تنظیمی ڈھانچے، قیادت اور مقصد پر محیط ہونا چاہیے۔
اس کے ساتھ ان کی فنڈنگ کی کمر توڑنے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہی قابل عمل ہو سکتا ہے جب نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی جیسے ادارے مزید مضبوط ہوں تاکہ ایسی تمام تنظیموں کی مالی سرگرمیوں پر سخت نگرانی رکھی جائے اور غیر قانونی فنڈنگ کے ذرائع کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔
لیکن اس سب سے زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ ریاست کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مستقل سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ دہشت گردی اور شدت پسندی سے متعلق کوئی بھی اقدام تینوں ستونوں میں مکمل ہم آہنگی اور مستقل مزاجی کا متقاضی ہے۔
اگرچہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، لیکن کالعدم تنظیموں کا نئے ناموں کے ساتھ دوبارہ فعال ہونا ایک مسلسل سکیورٹی رسک ہے جسے مضبوط ارادے اور جامع اصلاحات کے ذریعے ہی بند کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔