تحریک لبیک کا عروج وزوال کیسے ہوا؟

اس پارٹی پر پہلے بھی پابندی لگی جو علما کے اصرار پر اٹھا لی گئی، اس مرتبہ کے فیصلے کا کیا مستقبل ہو گا یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔

23 اپریل، 2021 کو اسلام آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے بانی اور سابق سربراہ مرحوم خادم حسین رضوی کی گاڑی پر لگی تصویر کے پاس سے ایک شخص گزر رہا ہے (عامر قریشی / اے ایف پی)

سخت گیر مؤقف رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے قیام کو محض ایک ہی دہائی گزری ہے کہ اس کا تنظمیی ڈھانچہ ملک بھر میں نظر آتا ہے۔

ٹی ایل پی کی بنیاد گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو چار جنوری، 2011 کو قتل کرنے والے ان کے سرکاری محافظ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے شروع ہونے والی ایک تحریک سے پڑی۔

بعد ازاں یہ پارٹی اپنے مذہبی اور سیاسی ایجنڈے کے زور پر لوگوں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی۔ اس پر ریاستی حمایت کے الزامات بھی لگتے رہے جن کی حکومتیں تردید کرتی رہیں۔

اب یہ جماعت زیر عتاب ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے جمعرات کو اس پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کی منظوری دے دی۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق آج وفاقی کابینہ میں ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کی باقاعدہ منظوری دی گئی۔

بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ تنظیم پر پابندی کی ایک وجہ 2021 میں دی گئی ضمانتوں سے روگردانی ہے۔

ماضی میں ٹی ایل پی کے پرتشدد احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں سکیورٹی اہلکار اور بے گناہ راہگیر جان سے گئے تھے۔

ٹی ایل پی نے 10 اکتوبر کو ’لبیک یا اقصیٰ‘ کے نام سے لاہور تا اسلام آباد مارچ کا اعلان کیا جسے روکنے کی کوششوں پر ٹی ایل پی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں۔

13 اکتوبر کو پنجاب کے شہر مریدکے میں مارچ کو بزور طاقت منتشر کر دیا گیا۔

پولیس کے مطابق مارچ میں شامل افراد کو منتشر کرنے کی کارروائی کے دوران ایک ایس ایچ او جان سے گئے جبکہ 80 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے۔

ادھر ٹی ایل پی نے بھی اپنے کئی کارکنوں کی اموات، زخمی ہونے اور گرفتاریوں کا دعویٰ کیا۔

مریدکے میں سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد ملک بھر میں ٹی ایل پی کے مرکز سمیت ایسی مساجد کو محکمہ اوقاف اور ضلعی انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا جن میں تنظیمی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔

ترجمان محکمہ اوقاف پنجاب آصف اعجاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’تحریک لبیک کے نام سے مساجد یا مدارس کی رجسٹریشن تو موجود نہیں، البتہ 200 کے قریب ایسی مساجد ہیں جو ٹی ایل پی رہنما اور کارکن مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔

’ان میں سے لاہور میں اس جماعت کے مرکز مسجد رحمت الالعالمین سمیت 35 سے 40 مساجد، جہاں ان کا زیادہ اثر ورسوخ تھا، سیل کر کے ان کا انتظام محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

’تاہم کئی مساجد ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں بھی دی گئی ہیں، لیکن یہ عارضی ہے اور ابھی مستقل کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘

پنجاب کی وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری نے منگل کو لاہور میں بتایا کہ پارٹی کے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کر کے اس کی فنڈنگ روک دی گئی ہے، جب کہ حکومت نے 3800 ایسے بینک اکاؤنٹس کی بھی نشاندہی کر لی ہے جہاں سے انہیں مالی امداد ملتی تھی۔

اکثر لوگ ٹی ایل پی کے حالیہ غزہ مارچ کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہے، وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب غزہ میں امن معاہدہ ہو چکا تھا۔

اظہار یکجہتی کے لیے مارچ کر کے عام لوگوں کے معمولات زندگی کو متاثر کرنا ٹی ایل پی کی کم ہوتی حمایت کی دلیل بنی۔

لیکن اس سب سے قبل ٹی ایل پی کے احتجاج کی وجہ سے کبھی وزرا کو استعفے دینے پڑے تو کبھی فرانس کے خلاف قرارداد منظور کرکے دھرنوں کو ختم کیا جاتا رہا۔

ٹی ایل پی کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی اور ان کے چھوٹے بھائی 13 اکتوبر کو سکیورٹی اداروں کے آپریشن کے بعد سے روپوش ہیں۔

پنجاب بھر میں درج 72 مقدمات میں ان کے خلاف اقدام قتل اور دہشت گردی جیسی سنگین دفعات شامل ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق اب تک پانچ ہزار کے قریب ٹی ایل پی کارکن حراست میں لیے جا چکے ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کریک ڈاؤن آخری اعلانات تک جاری ہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوری سمیت اہم رہنما اور عہدے دار بھی منظر سے غائب ہیں۔

ٹی ایل پی کا قیام اور مشکلات

تحریک لبیک کے اہم رہنماؤں سے پارٹی کی موجودہ صورت حال سے متعلق گفتگو کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے بات نہیں کی۔

تاہم لاہور میں قومی اخبار کے چیف رپورٹر حسنین اخلاق بتاتے ہیں ’ٹی ایل پی کا قیام مذہبی نعرے پر ہوا جو 2011 میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ان کے محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری کی رہائی کے مطالبے سے شروع ہوا۔‘

انہوں نے کہا کہ ابتدا میں کئی مذہبی رہنماؤں نے مل کر تحریک لبیک یارسول اللہ کے پلیٹ فارم سے ممتاز قادری کی رہائی کے لیے جدوجہد کا فیصلہ کیا۔

’پہلے تو یہ اتحاد صرف مذہبی طور پر چلتا رہا پھر اس نے سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو کئی اتحادی مذہبی رہنما اپنی جماعتوں سے الگ ہو گئے۔

’جب ممتاز قادری کو 2016 میں پھانسی دی گئی تو یہ تحریک مزید زور پکڑ گئی۔ بعد ازاں تحریک لبیک یارسول اللہ کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی میں اراکین کے حلف ناموں میں تبدیلی اور توہین مذہب کے الزام میں گرفتار آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی کے خلاف اس پلیٹ فارم سے فیض آباد میں دھرنا دیا گیا۔

’لیکن احتجاج ملک بھر میں پھیل گیا، یہی وہ موقع تھا جب ٹی ایل پی ناموس رسالت کے نام پر گلی محلوں تک پھیل گئی۔‘

حسین اخلاق کے بقول: ’ابتدا میں پیر افضل قادری، آصف جلالی اور خادم رضوی نے اس جماعت کی قیادت سنبھالی لیکن جب دھرنا ختم کرانے کا مرحلہ آیا تو ان تینوں میں سب سے سخت موقف رکھنے کی وجہ سے خادم رضوی زیادہ نمایاں ہو گئے۔

’یہ تنیوں رہنما علیحدہ ہو گئے اور پارٹی قیادت اس وقت کی مجلس شوری نے خادم رضوی کے سپرد کر دی۔

’جب خادم حسین رضوی کا 2020 میں انتقال ہوا تو ٹی ایل پی کا سربراہ ان کے بڑے صاحب زادے سعد حسین رضوی کو بنا دیا گیا۔

حسین اخلاق مزید کہتے ہیں ’اس جماعت نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو 2016 میں الیکشن کمیشن میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) جماعت کے طور پر رجسٹرڈ کرائی گئی۔

لیکن آصف جلالی نے تحریک لبیک اسلام کے نام سے الگ جماعت بنا لی جس کو متحمل مزاج ہونے کی وجہ سے زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔‘

سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’ٹی ایل پی نے 2017 میں لاہور سے نواز شریف کی نااہلی کے بعد خالی نشست پر پہلی بار امیدوار کھڑا کر کے ساڑھے سات ہزار ووٹ لیے۔ 

’ٹی ایل پی کی مجلس شوری نے ہی 2018 کے عام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی سینکڑوں نشتوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے۔

’انتخابی نشان کرین پر کئی حلقوں میں ان کے امیدوار دوسرے یا تیسرے نمبر پر رہے۔ کراچی سے ٹی ایل پی کو دو صوبائی اور ایک مخصوص نشست ملی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح ’فروری 2024 کے عام انتخابات میں انتخابی نشان 'کرین' کے ساتھ حصہ لے کر 22 لاکھ ووٹ حاصل کر کے ٹی ایل پی پانچویں بڑی جماعت بن گئی۔

’لیکن یہ جماعت صرف ناروال سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست جیت سکی، حتی کہ ٹی ایل پی رہنما پی ٹی آئی کی طرح انتخابی دھاندلی کا الزام بھی لگاتے رہے۔‘

حسنین اخلاق کے بقول پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی جب ٹی ایل پی نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تو سکیورٹی اداروں کی سخت کارروائی سے دونوں طرف کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس وقت بھی اس جماعت پر پابندی لگا کر جہلم میں مذاکرات کے ذریعے مارچ کو منتشر کیا گیا تھا۔

’اب پھر لبیک اقصی کے نام سے 10اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کی مارچ کو حکومت نے مرید کے میں طاقت سے روکا اور آپریشن شروع کیا۔

’جماعت پر پابندی کے لیے بھی کارروائی شروع کی گئی۔ اس بار مختلف یہ ہے کہ پارٹی کے ہزاروں کارکن گرفتار کر لیے گئے، مرکز سمیت دفاتر تحویل میں ہیں اور قیادت منظر عام پر نہیں رہی۔ لہذا اس بار پہلے سے زیادہ سخت کارروائی دکھائی دے رہی ہے۔‘

پولیس حکام کے مطابق تحریک لبیک کے خلاف قانونی کارروائی جاری رہے گی۔ پنجاب حکومت نے عوام کو اس جماعت کی جانب سے کسی گڑبڑ کی اطلاع کے لیے پولیس ہیلپ لائن پر کال کرنے کی ترغیب دی ہے۔

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ سعد اور انس رضوی سمیت کسی پارٹی رہنما یا کارکن کو رعایت نہیں دی جا سکتی۔ 

تحریک لبیک پر پہلے بھی پابندی لگی لیکن علما کے اصرار پر اٹھا لی گئی، اس مرتبہ کے فیصلے کا کیا مستقل ہو گا یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین