پاکستان فوج کے غزہ امن فورس میں ممکنہ کردار سے فائدہ اور نقصان کیا؟

اسلام آباد میں دفتر خارجہ حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ ’پاکستان بھی اس فورس کا حصہ بننے کا جائزہ لے رہا ہے تاہم معاملات ابھی ابتدائی مرحلے پر ہیں اور اس بارے میں ابھی کافی کچھ طے ہونا باقی ہے۔‘

جنوبی سوڈان کے شہر بینٹیو میں اقوام متحدہ کے ساتھ امن کے لیے خدمات انجام دینے والے 272 پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو سیلاب میں امدادی سرگرمیوں کے لیے تمغہ دینے کی تقریب (کیپٹن تیمور احمد/یو این)

غزہ میں قیام امن کے لیے بیس نکاتی معاہدے کے مطابق ایک کثیر القومی فورس تعینات کیا جانا بھی شامل ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ’پاکستان بھی اس فورس کا حصہ بننے کا جائزہ لے رہا ہے۔‘ ایسا کرنے سے پاکستان کے لیے کیا پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں؟

اسلام آباد میں دفتر خارجہ حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی کہ ’پاکستان بھی اس فورس کا حصہ بننے کا جائزہ لے رہا ہے تاہم معاملات ابھی ابتدائی مرحلے پر ہیں اور اس بارے میں ابھی کافی کچھ طے ہونا باقی ہے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ستمبر 2025 کے اواخر میں پیش کیے گئے امن منصوبے میں ایک کثیرالقومی انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس کا قیام بھی شامل تھا۔

ایک اخباری خبر کے شائع ہونے کے بعد کہ افواج پاکستان کی بھی غزہ امن فورس میں شمولیت پر غور ہو رہا ہے ملک کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ کچھ حلقے فوج بھیجنے کے حق میں وہیں باقی حلقوں کی جانب سے سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں بیان دیا کہ ’پاکستان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی کے لیے اپنے فوجی دستے بھیجنے پر ابھی غور کر رہا ہے۔ یہ معاملہ ابھی حتمی نہیں ہوا اور غور کے مرحلے میں ہے۔ حکومت تمام تقاضے پورے کرنے کے بعد فیصلہ کرے گی۔‘

وزیر دفاع نے تاہم یقین دلایا کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے حکومت پارلیمان اور تمام متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لے گی۔

یہ فورس عرب ممالک اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے قائم کیے جانے کی تجویز ہے۔ اس فورس کا مقصد غزہ میں سکیورٹی کی فراہمی، نئی فلسطینی پولیس فورس کی تربیت اور غزہ کی پٹی کو غیرعسکری بنانے اور تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کرنا ہوگا۔

اس فورس میں اب تک انڈونیشیا، آزر بائیجان اور ترکی نے فوجی بھیجنے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔ ترکی کی پیشکش پر اسرائیل کی طرف سے اعتراض بھی سامنے آیا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ایک بیان میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ سمیت مختلف قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں گردش کرنے والی خبروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنے فوجی دستے بھیجنے پر غور کر رہا ہے۔

تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ اور سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے اور اس معاملے پر مشاورت کرے، تمام حقائق کو واضح کرے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی غیر شفاف یا خفیہ پالیسی اپنانے سے گریز کرے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے دفاعی و سفارتی ماہرین سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس معاملے میں ممکنہ پیچیدگیاں کیا ہو سکتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’فورس بھیجنے کا حتمی فیصلہ تو نہیں ہوا لیکن میرے خیال میں پاکستان کو اس کا حصہ نہیں بننا چاہیے کیونکہ حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے یہ فورس بھیجی جا رہی ہے۔ تو فائدہ کیا ہے دوسری جانب اسرائیل بھی اگر باز نہیں آتا تو یہ فورسز کیا ایکشن لیں گی؟ ہاں اگر اقوام متحدہ قیام امن کے لیے افواج بھیجتا ہے تو پاکستان اس میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ لیکن ابھی کی صورت حال کے مطابق سارا بوجھ پاکستان پڑے گا۔‘

سابق سینیئر سفارت کار عبدالباسط نے کہا کہ ’حماس نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے پر رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔ ایسی صورت میں، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان امریکی اور اسرائیلی دباؤ پر حماس کو زبردستی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے والی کسی مہم کا حصہ بننا چاہیے گا۔‘

جبکہ سینیٹر راجہ علامہ ناصر نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر بیان دیا ہے کہ ’آئی ایس ایف کے لیے کوئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی باقاعدہ منظوری موجود نہیں، اس لیے یہ فورس لازماً امریکی قیادت میں کام کرے گی۔ اس سے اس کی غیر جانبداری ختم ہو جائے گی اور وہ واشنگٹن اور تل ابیب کے مفادات کی تابع ہوگی۔ عملی طور پر بھی ISF کو داخلے، نقل و حرکت، اور رسد کے لیے اسرائیل پر انحصار کرنا پڑے گا، جس سے اس کی آزادی اور ساکھ دونوں تباہ ہو جائیں گی۔ غزہ میں پائیدار امن اور استحکام کسی غیر ملکی فوجی موجودگی سے نہیں بلکہ فلسطینی قیادت، حکمرانی، تعمیرِ نو، اور قومی مفاہمت سے آئے گا۔‘

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی افواج کو بھیجنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ان کے مطابق یہ پاکستان کے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔

برگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان آٹھ کلیدی مسلم ممالک میں شامل ہے جنہوں نے غزہ امن منصوبے کے لیے کوششوں کی حمایت کی، تاکہ نسل کشی کا فوری خاتمہ ہو اور دو ریاستی حل کے لیے قابلِ عمل راستہ اختیار کیا جا سکے۔ اہم پہلو یہ ہے کہ غزہ میں موجود قابض اسرائیلی افواج کی جگہ فوراً  کسی اور امن فورس کے ذریعے سکیورٹی اور امن بحال کیا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اقوام متحدہ کے امن مشنز میں ایک بڑے دستہ فراہم کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان مسلم ممالک کے ساتھ کسی عالمی طور پر منظور شدہ فورس کا حصہ بن کر غزہ میں قیامِ امن، سنگین انسانی بحران کے ازالے، اور پائیدار بحالی و تعمیرِ نو کی کوششوں کو سپورٹ کرنے کے لیے اپنے دستے بھیجتا ہے تو یہ نہ صرف ایک منفرد اعزاز ہوگا بلکہ ایک مقدس فریضہ بھی جس کی ادائیگی جذبے اور فخر کے ساتھ کی جانی چاہیے۔‘

سینیئر صحافی کامران یوسف نے کہا کہ ان کو لگتا ہے کہ پاکستان اس فورس کا حصہ بنے گا۔ ان کا البتہ اصرار تھا کہ ’اس معاملے کو جذبات کے بجائے حقیقت پسندی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ISF کا حصہ بننا بظاہر پرخطر سہی، لیکن اسے کسی طور غلط قدم نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تصور کہ یہ فورس فلسطینیوں کے خلاف استعمال ہوگی، زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔

’پاکستان کا کوئی بھی فیصلہ ساز ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر اگر فلسطینی خود (جن میں حماس اور فلسطینی اتھارٹی دونوں شامل ہیں) اس منصوبے پر رضامندی ظاہر کر دیں، تو پھر اعتراض کی گنجائش کیا رہ جاتی ہے۔ خارجہ پالیسی کو خالص جذبات کے تحت ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔ اگر کسی ملک کو عالمی سیاست میں اہم رہنا ہے تو اسے حالات کی بساط پر فعال رہنا ہو گا۔‘

دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان نے ہم ہمیشہ قیام امن کے لیے اقوام متحدہ امن مشن کے لیے افواج کو بھیجا ہے تو فلسطین کے حوالے سے پاکستان ہمیشہ خاص جذبہ رکھتا ہے تو غزہ کے لیے ضرور افواج بھیجنی چاہیے قبلہ اول کی حفاظت پاکستان کی افواج کے لیے اعزاز ہو گا۔

’میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کوئی رسک ہو گا۔ اہم یہ ہے کہ عرب دنیا کی سکیورٹی کو بھی ہم دیکھیں گے، سعودی عرب کے ساتھ پہلے ہی دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے۔

’دوسری بات یہ ہے کہ یہ افواج وہاں لڑنے نہیں جا رہیں بلکہ امن کے قیام، فلسطینی پولیس کی تربیت اور غزہ میں تعمیر نو کی نگرانی کے لیے جا رہی ہیں۔‘

پاکستان فوج کے غزہ میں امن فورس کے کردار سے چند فائدے اور نقصانات

فائدے

پاکستانی فوج کی غزہ امن فورس میں شمولیت سے  ملک کا بین الاقوامی سطح پر کردار اور نمائندگی مضبوط ہوگی۔ ​

اس سے پاکستان ایک امن پسند، ذمہ دار اور علاقائی استحکام میں مددگار ملک کے طور پر اپنے تشخص کو مستحکم کرسکتا ہے۔

نقصان

پاکستان کی فوج کی غزہ میں تعیناتی سے اندرونی سلامتی کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔​

پاکستان میں عوام اور سیاسی حلقوں میں اس اقدام کے خلاف مخالفت یا عدم اعتماد کے جذبات ابھر سکتے ہیں، خاص طور پر اگر فوجی تعیناتی کے حوالے سے کوئی واضح حکومتی اعلان یا منظوری نہ ہو۔​

اسرائیلی اور بعض دیگر عالمی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فوجی تعیناتیاں سیاسی اور علاقائی تناؤ کو بڑھا سکتی ہیں، اور اس حوالے سے پاکستان کو دیگر ممالک سے مخالفت یا تنقید کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین