ٹی ایل پی پر پابندی: اصل حل سماجی، معاشی اور سیاسی اصلاحات

وفاقی کابینہ کی منظوری سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید اب پاکستان میں متشدد مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو لگام ڈالی جا سکے لیکن سماجی، معاشی اور سیاسی اصلاحات کے بغیر انتہا پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی کو ختم کرنا مشکل ہے۔

پولیس 13 اکتوبر 2024 کو کراچی میں مظاہرے کے دوران تحریک لبیک پاکستان کے ایک رکن کو حراست میں لیتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پنجاب حکومت کی تجویز پر وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کی منظوری دے دی ہے، جس سے کئی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن کیا اس طرح انتہا پسندی کو قابو کیا جا سکتا ہے؟

وفاقی کابینہ کی طرف سے دی جانے والی اس منظوری سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ شاید اب پاکستان میں متشدد مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو لگام ڈالی جا سکے لیکن ٹھوس سماجی، معاشی اور سیاسی اصلاحات کے بغیر انتہا پسندی یا مذہبی بنیاد پرستی کو ختم کرنا مشکل ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پابندی اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ پابندی کے حوالے سے حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی، جس کے ایک انتہائی مضبوط سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کو مذہبی انتہا پسند تنظیموں کی دھمکیوں کے بعد اپنے ہی ایک فیصلے پہ نظرثانی کرنا پڑی اور ایک ایسا فیصلہ دینا پڑا، جس سے مذہبی انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بڑھے۔

پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے ارتقا پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں سپاہ صحابہ پاکستان، سپاہ محمد پاکستان، لشکر جھنگوی، جیش محمد، لشکر طیبہ سمیت کئی مذہبی تنظیموں پر پابندی لگائی گئی لیکن اس کے باوجود انتہا پسندی کا سرطان تواتر سے بڑھتا رہا۔

ماہرینِ تعلیم کا خیال ہے کہ پاکستان میں جنرل ضیا کے دور میں نصاب میں کی جانے والی تبدیلیوں نے ملک میں انتہا پسندی کو بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی طور پر قرارداد مقاصد سے لے کر حدود آرڈیننس کے نفاذ تک اور حدود آرڈیننس سے 90 کی دہائی میں شریعت بل کی منظوری کی کوشش تک مختلف قوانین نے بھی مذہبی رجعت پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی کی۔

افغان جہاد نے اس پر جلتی کا کام کیا، جس نے انتہا پسندوں کی ایک پوری فوج تیار کی، جس نے اپنے پیر کشمیر سے لے کر بوسنیا اور چیچنیا سے لے کر ازبکستان تک پھیلائے۔

افغان جہاد نے ملک میں مدرسہ نیٹ ورک کو پھیلایا۔ قیام پاکستان کے وقت جہاں مدارس کی تعداد سینکڑوں یا چند ہزار تک محدود تھی وہ اب افغان جہاد کی وجہ سے 36 ہزار سے زیادہ ہے اور یہ بھی صرف رجسٹرڈ مدارس کی تعداد ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اندازے کے مطابق ان مدارس میں 25 لاکھ سے زائد طالب علم ہیں، جن کی ایک بڑی تعداد غریب اور پسماندہ علاقوں سے ہے۔

اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مساجد بھی ہیں، جہاں مذہبی رہنماؤں کے خطبات پر کسی طرح کی کوئی قدغن نہیں ہے اور وہ فرقہ واریت سے لے کر تکفیریت تک ہر مسئلے پر ببانگ دہل شعلہ بیانی کرتے ہیں۔

مزارات اور درگاہیں کسی حد تک اس مذہبی انتہا پسندی سے دور تھیں لیکن پہلے سنی تحریک اور بعد میں تحریک لبیک پاکستان کے ظہور نے خانقاہوں، سجادہ نشینوں اور مزارات کے متولیوں کو بھی انتہا پسندی کی اس دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

آج تحریک لبیک کے کارکنان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ایسی بھی ہے جو مختلف پیروں کی مرید ہے۔

اس کے بانیوں میں سے ایک پیر افضل قادری بھی سجادہ نشین تھے، جو اب گوشہ نشین ہیں۔ اس کے علاوہ 130 مساجد اور 227 مدارس بھی ٹی ایل پی سے منسلک ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اس کے شعبہ خدمت اور سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں۔

سماجی علوم کے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انتہا پسندی کے بڑھنے میں سب سے اہم کردار معیشت کا ہے۔

ڈاکٹر حمزہ علوی کے مطابق سابق فوجی آمر ایوب خان نے جب زراعت کو جدید بنانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کے اس وقت کے شمال مغربی صوبے میں ایک گھرانہ اوسطاً دس ایکڑ زمین کاشت کرتا تھا لیکن ایک ٹریکٹر نے 110 ایکڑ کاشت کرنا شروع کر دی، یعنی ایک ٹریکٹر نے 10 گھرانوں کو بے روزگار کیا۔

یوں ایوب خان کے دور میں زراعت میں اس جدیدیت کی وجہ سے دیہی غربت شروع ہوئی، جو جنرل ضیا کے دور تک اپنی معراج پر پہنچی۔

اسی اثنا میں بڑے پیمانے پہ مدارس کھولے گئے جہاں بچوں کو روٹی، پانی، بجلی اور رہائش مفت فراہم کی گئی۔

پاکستانی معاشرے میں جہاں عوام کی ایک بڑی تعداد پانچ یا پانچ سے زیادہ بچے رکھتی ہے، نے اپنی غربت کو کم کرنے کے لیے بچوں کو مدارس بھیجا۔

آج بھی صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی مدرسے میں پختون علاقوں کے بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔

افغان جنگ اور غربت اس کے دو اہم عوامل ہیں لیکن پختون مزدوروں کی مشرق وسطیٰ میں مزدوری نے بھی ان میں مذہبی رجحان کو بڑھایا جب کہ تبلیغی جماعت اور ریاستی پالیسی نے بھی پختونوں کو مذہبی رجحان کی طرف دھکیلا۔

خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب کے سرائیکی علاقوں میں بھی معاشی پسماندگی تھی اور خیال کیا جاتا ہے پشتونوں کے بعد ایک بڑی تعداد مدارس میں سرائیکی علاقوں سے ہے۔

سپاہ صحابہ، جیش محمد، لشکر جھنگوی سمیت کئی مذہبی انتہا پسندوں کی جڑیں بھی انہی علاقوں میں ہیں۔ اب سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پسماندہ علاقوں میں بھی مدارس کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔

اس مضبوطی کی ایک بڑی وجہ افغان جہاد کے علاوہ نظام تعلیم کی بربادی ہے۔ صرف سندھ میں چار ہزار سے زیادہ سکول ایک طویل عرصے تک غیر فعال رہے۔

ملک میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے سکولز ہیں، جہاں نہ چار دیواری ہے، نہ پانی، بجلی، لیب اور بیت الخلا کی مناسب سہولت ہے۔

اگر حکومت واقعی اس مسئلے پر قابو پانا چاہتی ہے تو سرکاری سکولوں کی حالت زار کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر کرے۔

ملک میں کم ازکم ایک لاکھ ایسے سکول کھولے جائیں، جہاں غریب بچوں کو رہائش و خوراک مفت فراہم کی جائے اور والدین کو بچوں اور بچیوں کو سکول بھجینے کے لیے ماہانہ مالی وظیفہ دیا جائے۔

اگر نئے سکول نہیں تعمیر کیے جا سکتے، تو موجودہ سکولوں کو ہی دو چار منزلہ عمارت کی شکل دے دی جائے۔

والدین خوشی سے بچوں کو مدارس نہیں بھیجتے۔ آج بھی اگر آپ ایک دیہاتی عورت سے پوچھیں کہ وہ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا چاہے گی یا ملا، تو وہ بے ساختہ کہے گی ڈاکٹر لیکن اسے معلوم ہے کہ ڈاکٹر بنانے کے لیے اس کو وسائل میسر نہیں ہیں۔ حکومت یہ وسائل فراہم کر دے، تو 60 فیصد مولویوں کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا۔

اس کے علاوہ نصاب میں انقلابی تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی اور ریاستی معاملات کو الگ الگ کرنا بھی وقت کا تقاضہ ہے۔

ملک میں نو کروڑ سے زیادہ افراد غربت میں ہیں، 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 67 فیصد لوگوں کو پکی چھت میسر نہیں ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے سیلاب اس غربت میں مزید اضافے کا باعث ہوں گے، اس لیے انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے غربت کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سیکولر پالیسیوں سے انتہا پسندی کو قابو کیا جا سکتا ہے لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش میں ایسی پالیسیوں کے باوجود انتہا پسندوں کا عروج ہوا کیونکہ دونوں ممالک غربت کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔

نتیجتاً انتہا پسند ہندو اور مسلم تنظیموں نے خیراتی اداروں کے نام پر لوگوں کو مذہبی رجعت پسندی کی طرف راغب کیا، جس کا اختتام مذہبی شدت پسندی پر ہوا۔

اور آخری نقطہ یہ ہے کہ ریاست یہ فیصلہ کرے کہ وہ سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے اس طرح کے مذہبی پراکسیز کو استعمال نہیں کرے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے،  انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر