’غیر معمولی‘ پریس کانفرنس کے بعد کا پاکستان

حقیقت یہ ہے کہ بیانیے کی جنگ میں جیت کبھی فوری نتائج نہیں دیتی، ایک بیانیہ وقتی طور پر دب بھی جائے تو دوسرا جنم ضرور لیتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے حامی 2 دسمبر 2025 کو پشاور میں احتجاج کر رہے ہیں (عبدالمجید/ اے ایف پی)

اگر دبے لفظوں یا اشاروں کنایوں میں بات کہنے سے معاملہ حل ہو جائے تو یہ انمول ہے کیوں کہ کہنے والے کی لاج بھی رہ جاتی ہے اور جس سے کہا جا رہا ہوتا ہے، وہ سمجھ جائے تو اس کی بھی عزت و احترام کم نہیں ہوتا۔

لیکن بات بڑھ جانے سے شاید فوراً تو کسی ایک فریق کا پلڑا بھاری ہو جائے، مسئلہ حل نہیں ہوتا اور جب تک مسئلہ باقی، بس نقصان ہی نقصان۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے 5 دسمبر 2025 کو ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی، جس میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے تنقیدی بیانات پر فوج کا سخت اور دو ٹوک ردعمل سامنے آیا۔

انہوں نے عمران خان کے بیانیے کو ’ریاست مخالف‘ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور بغیر کسی لگی لپٹی کے کیمروں کے سامنے وہ کچھ کہہ ڈالا، جس کی مثال نہیں ملتی۔

یہ پریس کانفرنس کسی معمولی ردعمل یا بیانیے سے بہت آگے کی بات تھی، اس نے دراصل ایک ایسی لکیر کھینچی جس سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ اگر کوئی شخصیت یا سیاسی فورم فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کرے گا تو عسکری ادارہ ’بیچ کا راستہ‘ اختیار نہیں کرے گا بلکہ دو ٹوک موقف اپنائے گا۔

تحریک انصاف کی موجودہ قیادت نے بھی میڈیا پر آ کر ردعمل تو دیا لیکن اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا راستہ نہیں اپنایا۔ اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں تھی کہ اس جماعت کی قیادت نے ماضی کی روش بدل ڈالی بلکہ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

لیکن اصل مسئلہ ابھی باقی ہے، سیاسی تناؤ اور کشیدگی برقرار ہے۔ بات مزید آگے بڑھی تو مسائل بھی بڑھیں گے۔

فوج کے اس واضح اور دو ٹوک موقف پر اسی دن، بلکہ اسی وقت سے، تبصرے جاری ہیں جس دن یہ پریس کانفرنس ہوئی تھی، لیکن ایسے غیر معمولی موقف کی بازگشت اور اثرات دیر تک رہیں گے۔

آئندہ آنے والے برسوں اور دہائیوں میں جب بھی ملک کی سیاست پر تبصرے ہوں گے تو اس پریس کانفرنس کا تذکرہ بھی ہو گا۔

فوج کی طرف سے حالیہ برسوں میں تواتر سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو اس کا کوئی آنکھوں کا تارا ہے اور نہ مخالف، اس لیے اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔

سیاست سے دور رہنے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ سیاست اور اس سے جڑی شخصیات پر بالکل ہی تبصرہ نہ کیا جائے یا ہر ممکن دور رہا جائے۔

اب فوج کی طرف سے جن نکات کو اجاگر کیا گیا، وہ نہ صرف موجودہ وقت کی سیاسی کشیدگی کا عکس ہیں بلکہ مستقبل میں فوج اور سیاسی جماعتوں سے اس کے تعلقات کے لیے ایک نیا معیار بھی طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گویا یہ اعلان کر دیا گیا ہے کہ وہ اب بیانیے کی جنگ میں خاموش تماشائی نہیں رہیں گے اور پھر اس کی بازگشت دیرپا اور گہری ہوتی ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی ارتعاش ہمیشہ سے موجود رہا ہے، وہاں براہ راست عسکری ردعمل سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھا سکتا ہے اور جب یہ گرمی تند و تیز بیانات سے بڑھتی ہے تو اس کی لپیٹ میں صرف جماعتیں نہیں آتیں، پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔

یہاں سوچنا صرف کسی ادارے کو نہیں بلکہ اس جماعت کے قائد کو بھی ہے جو پابند سلاسل ہیں، کہ کسی کو دباؤ میں لانے کی پالیسی کامیاب نہیں ہو رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ بیانیے کی جنگ میں جیت کبھی فوری نتائج نہیں دیتی۔ ایک بیانیہ وقتی طور پر دب بھی جائے تو دوسرا جنم ضرور لیتا ہے۔

اختلاف کی آواز اگر مدھم بھی ہو جائے تو اس کے پیچھے موجود بے چینی کسی نہ کسی گوشے میں اپنا اظہار تلاش کرتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ریاست اور سیاست، دونوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کون سا راستہ چاہتے ہیں، ٹکراؤ کا یا مکالمے کا۔

معاشی اشاریے اور عالمی برادری سے تعلقات کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان آج معاشی بحالی کے کنارے کھڑا ہے، عالمی برادری سے روابط نسبتاً بہتر ہو رہے ہیں اور امید کی ایک باریک مگر روشن لکیر یا کرن افق پر دکھائی دیتی ہے، لیکن یہ روشنی اسی وقت پائیدار ہو سکتی ہے جب سیاسی قوتیں ٹکراؤ کے بجائے مکالمے کی طرف بڑھیں اور ریاستی ادارے اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا ماحول تشکیل دیں جہاں اختلاف دشمنی نہ بنے اور تنقید غداری کے خانے میں نہ ڈالی جائے۔

دیرپا استحکام ہمیشہ تدبر، برداشت اور شفاف مکالمے سے جنم لیتا ہے، اسی لیے سوچنے کی ذمہ داری صرف ایک فریق پر نہیں۔

سوچنا سب کو ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر